Sunday, August 28, 2016

لندن کہانی ۔۔۔۔۔ جارج اورویل کے ناول پر مبنی کھیل


لندن میں مختصر قیام کے دوران ایک تھیٹر میں جارج اورویل کے 1949 میں لکھے گئے "نائنٹین ایٹی فور ۔۔۔۔ 1984" نامی ناول پر مبنی کھیل دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ میں کیمرہ لئے دیگر دوستوں کے ہمراہ اندر داخل ہوا۔ کھیل چل رہا تھا تو میں نے سٹیج کی ایک تصویر لے لی۔ تھوڑی دیر بعد دوسری تصویر بھی لے لی۔ تیسری تصویر لینے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ ایک باوردی خاتون میرے پاس پہنچ گئی اور انتہائی ادب سے بولی کہ جناب، تھیٹر کے اندر تصویریں نکالنا ممنوع ہے۔ میں نے معذرت چاہی، اور کیمرہ بند کردیا۔
کھیل بڑا شاندار تھا اور فکناروں کی شاندار لائیو پرفارمنس اور اس کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی، ساونڈ اور لائٹنگ کے متناسب اور خوبصورت امتراج نے ایک اثر آفرین تجربہ فراہم کیا۔ پاکستان میں بھی کچھ کھیل دیکھ چکا ہوں اور ایکٹنگ کا معیار یہاں بھی بہت شاندار ہوتا ہے۔
کھیل کا موضوع تھا حکومت کی طرف سے لگنے والی پابندیاں اور شہریوں کی سلب ہوتی آزادیاں، اور ریاستی سطح پر "سچ" کی تخلیق کا عمل۔ کھیل کا مرکزی نکتہ، میری دانست میں، یہ تھا کہ حکومتیں اور حکومتوں پر قابض گروہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں اور بطور فرد انسانوں کی آزادیاں کم ہوتی جارہی ہیں۔ پرائیویسی ایک دھوکہ ہے، کیونکہ پرائیویٹ کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ دیکھنے والے سب کچھ دیکھ لیتے ہیں۔ سننے والے سب سن لیتے ہیں۔ جسے ہم سچ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں وہ سچ کسی جگہ پر بیٹھ کر مقتدر حلقے تخلیق کرتے ہیں اور پھر پروپیگنڈا کے سہارے انہی تخلیق کردہ "حقائق" کو لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے اور ان پر ایمان لانے کی تلقین کی جاتی ہے۔

اس کھیل میں حکومت/ریاست ہزاروں "آنکھوں" سے شہریوں کو دیکھتی ہے اور ان کے تمام معاملات کی پل پل خبر رکھتی ہے۔ نہ صرف خبر رکھتی ہے بلکہ ریاستی/حکومتی نقطہ نظر سے"غلط" سوچ رکھنے والوں کو سزا دینے کا معقول انتظام بھی موجود ہوتاہے۔

کھیل کا مرکزی کردار ولسن نامی ایک ایسا مدیر ہوتا ہے جس کی ذمہ داری تاریخ اور واقعات کی ایک ایسی شکل تحریر کرنا ہوتی ہے جو حکومت اور اقتدار پر قابض پارٹی کی مفادات کا تحفظ کرے اور ان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ بار بار تاریخ بدلنے کے لئے نظریہ ضرورت کے تحت واقعات کو بدل بدل کر لکھے۔ 

واقعات کی تفاصیل، ثبوت اور دیگر مواد بدلتے بدلتے، یعنی سرکاری سچ کی تخلیق کا کام کرتے کرتے مدیر کو "اصل ماضی" سے لگاو ہوجاتا ہے، کیونکہ جو ماضی اور تاریخ وہ لکھ رہا ہوتا ہے وہ "بگ برادر" اور "پارٹی" کے منشا کے مطابق ہوتا ہے۔

فکری اور ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو کر وہ پارٹی کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی معاشرے میں نہیں ہوتی ہے۔ اسلئے خوف کے مارے وہ اپنے تئیں ایک محفوظ مقام پر بیٹھ کر پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ پارٹی کی مخالفت مول لینے کے بعد مدیر خود کو ایک حبس زدہ ماحول میں قید پاتا ہے۔ 

اس کے دوست اور احباب دھیرے دھیرے سرکاری ہرکاروں کے ہاتھوں غائب ہوتے ہیں۔ اُسے سب پر، بوجوہ، شک ہونے لگتا ہے کیونکہ تمام لوگوں کو، حتی کہ بچوں کو بھی، ایک دوسرے کی مخبری کرنے کی سرکاری ترغیب ہوتی ہے۔ 

ریاستی ایجنڈے کی تبلیغ کے لئے تحریر کردہ ایک کتاب میں یہ نعرے تحریر ہوتے ہیں، "جنگ ہی امن ہے"، "غلامی آزادی ہے"، اور "علم جہالت ہے"۔

مرکزی کردار کو حالات اور واقعات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ پاگل ہو گیا ہے۔ مخبری کی وجہ سے اس کی تحریریں پکڑی جاتی ہیں اور پھر اس بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پھر اُسے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ اسے اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ اُسے بتایا جاتا ہے کہ اس کی سوچیں بیمار ہیں اور اُسے پارٹی کے بارے میں اپنا نظریہ بدلنا ہوگا۔ تشدد کے زیرِ اثر وہ بدل جاتا ہے۔ اور اسے بھی بگ برادر سے بالآخر "محبت" ہو ہی جاتی ہے۔

جارج اورویل کا ناول دوسری جنگِ عظیم کے بعد والے ماحول میں برطانیہ میں قائم مضبوط حکومت کے بارے میں لکھا گیا تھا، اور اسکے کرداراور کہانی کا پلاٹ لندن کے معاشرے کے گرد گھومتا ہے، لیکن آج کے معاشروں اور روز بروز مضبوط ہوتی حکومتوں اور ریاستوں سے اس کی مماثلتیں حیران کن ہیں




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔