Tuesday, April 25, 2023

ہوپر نگر - نظروں سے اوجھل ایک حسین و مہربان خطہ

شرمندگی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ نومبر 2022 سے قبل میں نے کبھی بھی گنش پُل کے قریب سے نکلنے والی اُیوم نگر (بڑا نگر) کی طرف جانے والی سڑک کا رُخ نہیں کیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1999 سے آج تک خانہ بدوشوں والی زندگی گزار رہا ہوں۔ بفضلِ خدا چار براعظموں میں واقع نو ممالک کے کچھ شہروں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن اپنی دھرتی کی ایک خوبصورت وادی تک جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔

گزشتہ سال چالیس دنوں کے لئے وطن وارد ہوا تو ہوپر نگر تک جانے کا موقع نکالا۔ رشتے میں چچا، مگر بچپن کے دوست، کریم اسلم کی چمچماتی کار میں سوار ہو کر گلمت سے علی آباد وارد ہوے۔ پیٹرول بھرنے کے بعد واپس مُڑے اورالتت سے اترنے والے جھرنے کی معطر اور نمدار ہوا سے کچھ دیر کے لئے لطف اندوز ہونے کے بعد گنش پُل سے گزر کر ہوپر کی جانب چل پڑے۔

دریا کنارے چلتے چلتے ایک تنگ گھاٹی میں داخل ہوگئے۔ دائیں ہاتھ پر دریا کے نزدیک رنگ برنگ درخت یوں ایستادہ تھے جیسے قدرت نے ایک شاہکار تخلیق کرتے وقت اپنا برش بے دھیانی میں پھیرا ہو۔ خزان کا موسم تھا۔ درختوں پر لگے پتے رنگ برنگے پھولوں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ اس منظر کا حواس noپر طاری ہونا اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ہم بھی مسحور ہوگئے۔

تنگ گھاٹی پر دریائے نگر کا راج ہے، سوائے بائیں ہاتھ پر سڑک کے لئے بچی چھوٹی زمین کے۔

آگے بڑھتے بڑھتے ہم ایک پُل پر پہنچے۔ بائیں ہاتھ پر پہاڑ میں سے سفید رنگ کے پتھر نکالنے کا سلسلہ جاری تھا۔

بڑی مشینیں۔ بڑے پتھر۔ خوبصورت منظر۔

پُل پر سے مڑنے کے بعد سامنے چڑھائی ہے اور بائیں ہاتھ پر کھائی۔ دائیں ہاتھ پر پہاڑیوں کے اوپر نگر کے محنت کشوں کے لگائے درخت اپنی رعنائیاں بکھیر رہے تھے۔

راستے میں جابجا دلکش اور گھنے باغات ہیں۔ سڑک کنارے اخروٹ کے قوی الحبث درخت نہ جانے کتنی صدیوں سے کھڑی ہیں۔ جا بجا کلکاریاں مارتے اور دوڑتے بھاگتے بچے ہیں۔ کھلی اور صاف فضائیں ہیں۔ کچے اور پکے گھر ہیں۔ مساجد اور امام بارگاہیں اور پیاروں کی آخری آرامگاہیں ہیں۔ ہر طرف زندگی کے آثار ہیں۔

سڑک آبادی کے بیچ میں سے گزرتی ہوے مسلسل اوپر کی طرف جاتی ہے۔راستے میں میدانی علاقے بھی بہت ہیں۔ ایک مقام پر ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے، جہاں ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ سڑک ذرا تنگ ہے۔ اور آبادی والے علاقوں میں بچے اور بزرگ سڑک سے گزرتے ہیں اسلئے ڈرائیونگ بہت احتیاط سے کرنے کی گزارش ہے۔

راستے سے ہی وہ علاقہ بھی نظر آتا ہے جہاں دو سال قبل سیلاب سے تباہی مچادی تھی۔ ہم چلتے رہے۔ ویڈیوز بناتے ہوے اور تصویریں اتارتے ہوے۔ راستے میں بہت سارے سیاح بھی نظر آئے جو سڑک کنارے لگے دلکش خزان رسیدہ درختوں کے سامنے تصویریں نکلوا رہے تھے۔ ٹک ٹاک کے لئے ویڈیوز بنا رہے تھے۔

ہوپر گلیشر کے نزدیک تک پہنچتے پہنچتے تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ یہاں کافی سارے ہوٹلز، دکانیں اور مارکیٹیں تھیں۔ ہم نے کار ایک ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں رکھا اور نعلین در بغلین ہانپتے کانپتے گلیشیر کا نظارہ کرنے کے لئے مختصر سی پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ پہاڑی کے اوپر پہنچ کر وادی ہوپر اور گلیشیر کے بہت حسین نظارے دیکھنے کو ملے۔ وہاں بھی خوبصورت دکانیں موجود ہیں جن میں نوادرات، قیمتی پتھر اور علاقے کی ثقافتی علامتی اشیا موجود ہیں۔ ہنستے مسکراتے اور مہبربان چہروں والے دکاندار بہت محبت کے ساتھ پیش آئے۔

دور پہاڑی پر گلیشیر کے نزدیک ایک چھوٹی سی عمارت نظر آئی تو وہاں جانے کی ٹھانی۔ تھوڑی بہت چڑھائی کے بعد ایک بہت ہی زبردست ویو پوینٹ پر پہنچ کے ہوپر گلیشیر کے نظارے کئے۔ یہاں بھی اندرون ملک سے تعلق رکھنے والے سیاح موجود تھے۔

گلیشیر کی یخ بستہ ہواوں کو سینے میں سمونے، تصویریں نکالنے، ویڈیوز بنانے اور گلیشیر کے نظارے کرنے کے بعد واپسی کی راہ لے لی۔ بہت اچھا دن گزرا۔ ایک اور خواب پورا ہوا۔

اگلی دفعہ راکاپوشی بیس کیمپ، داریل، تانگیر اور فیری میڈوز دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ اگر زندگی رہی!


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔