Monday, August 15, 2016

آزادی کا فلسفہ

سو فیصد آزادی اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ آزادی حقیقت کا ہی نہیں، بلکہ ایک امید اور  خواب کا بھی نام ہے۔ آزادی ایک مسلسل ارتقائی عمل کا نام ہے جس میں انسانی عقل اور شعور کی پرورش اور ترقی ہوتی ہے، اور اس پرورش میں ریاست، ملک یا معاشرے کا کردار سہولت کار کا ہوتا ہے، یا ہونا چاہیے۔ آزادی حاصل نہیں کی جاتی ہے بلکہ اسے محسوس کیا جاتا ہے۔ آزادی ایک احساس کا بھی نام ہے۔


اصل آزادی ملک کی نہیں بلکہ ممالک میں رہنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔ جب انسان نہیں تھے تو آزادی کا نظریہ بھی نہیں تھا، لیکن زمین کے وہ ٹکڑے جنہیں آج ہم ممالک کے نام سے جانتے تھے بہر حال وجود رکھتے تھے۔

انسانوں کی آمد کے بعد انسانی سماج وجود میں آیا اور وسائل کی خاطر انسانوں نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو مظلوم اور محکوم اور ظالم اور حاکم کی اصطلاحات وجود میں آئیں۔ تکنیکی اور قوتی لحاظ سے مضبوط انسانوں یا قبیلوں نے کمزوروں کو زیر کر کے ان کا استحصال شروع کیا تو پھر غلامی اور آزادی کے نظریات نے جنم لیا۔
غالب قوتوں نے طاقت کے بل پر لوگوں کو محکوم رکھا۔ بادشاہتیں قائم ہوئیں۔ مختلف نظام آزمائے گئے۔ فکری ترقی ہوئی تو جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ جدید ممالک اور ریاستیں وجود میں آئیں، اس امید کے ساتھ کہ یہ سیاسی اکائیاں انسانی آزادیوں کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ تحفظ اور ترقی کے مواقعے فراہم کریں گے۔ بہت ساری ریاستیں اس میں کسی حد تک کامیاب ہوئیں ہیں، لیکن مکمل آنسانی آزادی کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ انسانی آزادی کا حصول اور انسانی آزادی کا قیام ایک مسلسل عمل ہے، جو نسبتاً ترقی یافتہ معاشروں میں بھی جاری ہے۔

میرا خیال ہے کہ انسانی آزادی کو کسی مخصوص ملک میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے سے جوڑنا خودفریبی کے مترادف ہے۔ کیونکہ ملکوں کا بننا، پھیلنا یا سکڑنا ایک ایسا سیاسی عمل ہے جس میں غالب قوتیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے شریک ہوتے ہیں۔ اسی لئے دیکھا گیا ہے کہ عام انسان ایک ملک سے نکل جانے کے بعد دوسرے ملک میں بھی استحصالی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ سماجی انصاف اور برابری کے نام پر اُٹھنے والی تحریکوں کے بطن سے ایسے ایسے خونخوار درندے پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنے "خواب" کی تکمیل کے لئے تشکیل شدہ معاشروں میں ہی بسنے والے انسانوں کا بدترین استحصال کیا، لاکھوں کروڑوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ بادشاہت کی جگہ منتخب نمائندوں اور غیر منتخب افسران شاہی نے لے لی۔ مظالم اور استحصال کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ حاکم بدل گئے۔ ظالم بدل گئے۔ جو کل کے مظلوم تھے وہ آج کے ظالم ہو گئے۔ آزادی کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا۔
میرا خیال ہے کہ آزادی کی راہ میں ملک اور ریاست سے بڑی رکاوٹ سماج ہے۔ اسی لئے ملک اور ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سماج کو انصاف پر مبنی نظام کے ذریعے ایک ایسے نہج پر لے آئے جہاں لوگ آزادی کا احساس لئے بنیادی ضروریات پوری کرنے اور انفرادی اور اجتماعی ترقی حاصل کرنے کے قابل بن سکیں۔

لیکن آزادی کی فراہمی ریاست ہی کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ اس میں سماج کا بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ آزادیوں کے حصول کی جدوجہد میں بطور رکاوٹ صرف ریاست اور حکومت کو ہی مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔ اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ سماج اور اس میں بسنے والے افراد کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی ہے۔ حالانکہ ریاست کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا تھاکہ سماج میں موجود لوگ ایک دوسرے کی آزادیاں سلب کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اس لئے انسانی آزادیوں کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لئے سماجی سطح پر شعور کی بیداری اور دیگر عملی اقدامات اُٹھانا ناگزیر ہے۔ 

شخصی آزادیاں لینے کے لئے حکومت اور ریاست پر ہی مکمل توجہ مرکوز کرنے والے لوگ مجھے ایسے چوزے لگتے ہیں جو گھونسلے میں منہ کھولے خوراک لانے والے پرندے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔

اگر کوئی ملک یا کوئی ریاست یا کوئی بھی سماج اپنے حدود میں رہنے والے افراد کو یہ آزادیاں نہیں دے سکتا ہے تو پھر آزادی کے نعروں اور دعووں پر سوال اُٹھتا ہے اور اُٹھنا بھی چاہیے۔ سوال نہیں اُٹھین گے تو درسگتی کیسے ہوگی؟ غالب قوتوں کو جوابدہ کیسے ٹہرایا جائے گا؟ ترقی کیسے ہوگی؟ میں بھی سوالات اُٹھاتا ہوں اور اُٹھاتا رہوں گا۔

لیکن سوال اُٹھانے اور غالب ہونے کے لئے کوشاں دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر خاندانی، گروہی یا انفرادی طاقت اور قوت کے حصول کی سیاست کرنے میں فرق ہے۔ اور اس فرق کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔