بہ زبان خود


ہر حوالے سے معتبر ہو تم
میں پرندہ ہوں، اور پر ہو تم

جو غم زیست کو مٹا دے گی
مجھے لگتا ہے وہ اثر ہو تم

نامکمل سا استعارہ میں
اور بے مثل خواب گر ہو تم

چشم نم ہے میری متا ع حیات
امتحان زیست ہے، ثمر ہو تم

ظلمتیں زیست کی مٹا جاناں!
نور میں ہوں، مگر سحر ہو تم