Friday, October 06, 2023

گوجال (ہنزہ) کی وخی شاعری – ایک مختصر جائزہ

اس مضمون کا مقصد گوجال کی وخی شاعری پر کچھ گزارشات پیش کرنی ہے۔ مگر اس سے قبل علاقے اور زبان کامختصر تعارف پیش خدمت ہے۔ 
وادی گوجال ضلع ہنزہ کا بالائی علاقہ ہے۔ ماضی میں مغربی مصنفین نے اس علاقے کو گوجال خورد اور ہمسارے میں واقع  واخان کو گوجالِ بزرگ کے نام سے بھی پُکارا ہے۔ بروشسکی بولنے والے احباب اس علاقے کو ہیر بر کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ بعض محققین کا ماننا ہے کہ لفظ گوجال دراصل ترک زبان کے لفظ "گوزیل" کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ گوزیل /گزیل ترکی  زبان میں خوبصورت کو کہتے ہیں۔ غالباً اطراف میں آباد ترک زبان بولنے والوں نے علاقے کو یہ نام دیا ہو، جو امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں بگڑ کر گوجال ہوگیا ہے۔ 
وادی گوجال گلگت بلتستان  اور چترال کے ان چند علاقوں میں شامل ہے جہاں وخی زبان بولنے والے بڑی تعداد میں صدیوں سے آباد ہیں۔ گوجال کے علاوہ وخی گویان بالائی اشکومن اور بروغل (یارخون ویلی، چترال) میں بھی پھل اور پھول رہے ہیں۔ وخی کے علاوہ بروشسکی اور ڈوماکی بولنے والے کی بھی ایک خاصی  بڑی تعداد گوجال میں آباد ہے۔ 
وخی ہند یورپی زبانوں کی ایرانی شاخ میں شامل پامیری خانوادے کی ایک منفرد  زبان ہے۔۔ اس لسانی خانوادے میں وخی کے علاوہ  شغنی، سریقولی، اشکاشمی اور دیگر بولیاں اور زبانیں بھی شامل ہیں۔ تاہم، شُغنی اور وخی یا پھر سریقولی اور وخی بولنے والوں کے درمیان رابطے کی زبان عموماً فارسی ہوتی ہے۔ کیونکہ نہ ان کی زبان ہمیں سمجھ آتی ہے، نہ ہماری ان کو! 
وخی زبان میں شاعری کی روایت 
وخی  زبان میں شاعری کی قدیم روایت موجود ہے۔  تحریری شکل میں نہ ہونے کے باعث یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ شاعری کی تاریخ کتنی طویل یا قدیم ہے۔ تاہم جو بچا کچھا کلام لوگوں کو زبانی یادرہا ہے ان پر مشتمل ایک کتابچہ چند سال قبل شائع ہواتھا۔ اس کتابچے  کو گلمت میں واقع بُلبُلک ہیریٹج سینٹر نامی ادارے نے شائع کیا تھا اور اس کا نام "پیوند" رکھا گیا تھا۔ 
"پیوند"  میں موجود  مختصر نظموں، گیتوں اور قطعات  کو اگر نمونے کے طور پر لیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کے وخی گویان دیگر لسانی  و ثقافتی گروہوں کی طرح قدرتی مناظر، حُسن اور عشق،  ہجر اور قلبی وارداتوں کے علاوہ شکاربازی، بہادری، جنگ  اور ہجر و ہجرت وغیرہ کے بارے میں اشعار اور نظمیں لکھتے تھے۔ ان کی شاعری کو اگر جدید شعری روایات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو زیادتی ہوگی، کیونکہ ان دنوں روایتی درس و تدریس کا کوئی سلسلسہ نہ تھا۔ مظاہر سے متاثر بہت سارے افراد بعض اوقات نظمی انداز میں نثر کہتے تھے، جن میں واردات ہائے قلبی کا تذکرہ ہوتا تھا۔  تاہم، اچھی شاعری اسی کو سمجھی جاتی تھی جس میں ربط اور جاذبیت دونوں موجود ہو۔ 
مطبوعہ و غیر مطبوعہ کلام کے کچھ نمونے تاریخی اعتبار سے بھی اہم ہیں کیونکہ ان  میں پرانے زمانے کے اکابرین  اور بااثر شخصیات کے نام بھی ہیں اور ان سے منسوب بہادری کے قصے بھی۔ کلام میں موجود ان اشخاص کے بارے میں دیگر حکایات اور قصے و کہانیاں بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آئی ہیں۔ 
ایک اور بات یہ واضح ہوتی ہے کہ پرانے زمانوں میں زیادہ تر شاعری فی البدیہہ ہوتی تھی۔ قلم و قرطاس سے محروم افراد اپنی شاعری کو گاتے یا پڑھتے ہوے تخلیق بھی کرتے تھے، بدل بھی دیتے تھے اور بڑھا بھی دیتے تھے۔ 
رقص اور شاعری و گلوکاری کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا تھا۔ دف اور تالیوں کے تال پر رقص کرنے والے گلو کار/شاعر "یورچ" میں جھومتے ہوے گاتے تھے اور مجمعے میں موجود افراد کورَس کی شکل میں ان شعرا اور گلوکاروں کے ساتھ مل کر گاتے اور ناچتے تھے۔ 
شعر گوئی کی  یہ خوبصورت اور پرجوش روایت اب گوجال میں بہت حد تک متروک ہوچکی ہے، لیکن اشکومن اور بروغل کے علاوہ وخان (تاجکستان و افغانستان) میں اب بھی اسی انداز میں شعر گوئی ہوتی تھی۔ 
شاعری کی ایک اور صنف اموات یا دیگر حادثات کے مواقعوں پر فی البدیہہ وجود میں آتی تھی۔ اسے وخی زبان میں "لُس" اور غالباً بروشسکی میں "لولو"  کہا جاتا ہے۔ لُس عموماً عورتیں روتے ہوے پڑھتی تھیں اور ان میں حزن و ملال سُننے کو ملتا تھا۔ گزرے ہوے کی تعریف و توصیف کی جاتی تھی اور اشک بہائے جاتے تھے۔ بدقسمتی سے جدت پسندی کے دباو تلے  لُس پڑھنے کی روایت بھی گوجال میں دم توڑ رہی  ہے۔  سماجی جبر کے تحت شاعری کی ایک خالص صنف کو ختم کرنا ثقافت اور  زبان کے ساتھ زیادتی ہے۔ 
خالص حجم  اور بہت حد تک معیار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وخی شاعری کی دنیا پر بلاشبہ رومانوی صنف کا غلبہ ہے، لیکن مذہبی کلام بھی بڑے پیمانے پر لکھا گیا ہے۔ مذہبی کلام کا ایک بڑا حصہ مدح گوئی پر مبنی ہے جس میں خدا، رسول اور اماموں کی تعریفیں لکھی جاتی ہیں۔ مذہبی کلام کی دوسری قسم خالص توصیفانہ نہیں بلکہ صوفیانہ نوعیت کی ہے جس میں روح الہی کے ساتھ ربط بڑھانے اور اسے سمجھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ 
ایک خاصا بڑا نمونہ کلام سماجی اصلاح کے پیغامات پر مبنی شاعری کی بھی ہے۔ اس میں مزاحمتی کلام بھی شامل ہے، جس کا حجم آئے روز بڑھتا  جارہا ہے۔ سماجی، ریاستی اور مذہبی جبر کے خلاف مزاحمت کی شاعری سماجی ناہمواریوں، آئینی و سیاسی محرومیوں اور دگرگوں معاشی حالات کے خلاف اظہارِ بغاوت ہے، اور موجودہ دور میں مزاحمتی شاعری کو بتدریج پذیرائی بھی مل رہی ہے، جو انتہائی خوش آئند ہے۔ وطن اور علاقے کی محبت اور شان و شوکت میں قصیدے لکھنے کی روایت بھی موجود ہے۔ 
مزاحیہ شاعری بھی بڑے پیمانے پر لکھی جاتی ہے، جس میں سماجی روایات و عادات کی مضحکہ خیزیوں، انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں اور دیگر معاملات کو طنز اور مزاح کے لطیف پیرائے میں لکھا جاتا ہے۔ تاہم، اس کلام میں بھی اصلاح کا پہلو ہوتا ہے۔ 
وخی زبان میں مشاعرے کی روایت تاریخی اعتبار سے نئی ہے، مگر گزشتہ چند عشروں سے مشاعرے تواتر سے منعقد ہوتے ہیں۔ ان مشاعروں کے دوران عموماً نئے شعرا کی تخلیقات اور پرانے شعرا کے نئے  کلام سُننے کو ملتے ہیں۔  روایتی مشاعروں کے برعکس، وخی مشاعروں میں شعرگوئی کے ساتھ ساتھ موسیقی اور گلوکاری کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
شاعری کے معیار پر گفتگو ہو سکتی ہے مگر یہ حیقیقت مُسلم ہے کہ شاعروں نے وخی شناخت کو برقرار رکھنے اور اسے پروان چڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔   تقریباً ہر جدید ملک میں عددی اعتبار سے اقلیت میں ہونے کے باعث زبان اور شناخت کا شیرازہ بکھرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ مگر شاعروں، گلوکاروں اور قصہ گویان  نے وخی بولنے والوں کو قدیم تاریخ اور تمدن سے جوڑے رکھا ہے، جو ایک مختصر گروہ کی بقا کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ روایتیں اسی طرح سے جاری رہیں گی اور متروک  یا پھر فراموش کردہ اصناف اور شعری روایتوں کی احیا کے لئے بھی کوشش کی جائے گی۔ 
کچھ تذکرہ شعری شخصیات کا
قدیم زمانے کے شعرا جن کے نام لوگوں کو  یاد رہے ہیں ان میں شیرین شاہ، غلامچی، مُلا شِکر، بیگ دولت، علی شفا، قلندر بیگ، خیال بیگ، گلبدن، قبلائی بُکی، قربان خان، اقبال حسین،  دادِ خُدا، پیر علی، ارباب محمد علی،  اور  یوسف خان   جیسے نامور شعرا موجود ہیں۔ ان کے علاوہ  دیگر شعرا، جن سے منسوب کلام "پیوند" نامی کتابچے میں موجود ہیں، میں زرمست، دائم، خُشول بیگ، محمد ضیا، طاق محمدوغیرہ شامل ہیں۔ اس گروہ میں شامل  تمام شعرا آنجہانی ہیں۔ تاہم، بہت ساروں کے کلام کے نمونے موجود ہیں اور ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی مدد سے انہیں محفوظ بنانے اور دوسروں تک پہنچانے کے لئے کوششیں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔ 
چپورسن سے تعلق رکھنے والے پیر علی کی شاعری، جذبات، کیفیات اور معیار کے حوالے سے  اپنی مثال آپ ہے۔ خوشقسمتی سے ان کا کلام کا ایک حسہ انہی کی آوازمیں موجود ہے۔ اسی طرح، گلمت سے تعلق رکھنے والے نیکبخت شاہ کی آواز بھی  ان کی وفات سے قبل ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ آوازیں ثقافتی اثاثے ہیں،جن کی اہمیت سے شائد آج ہم کلی طور پر واقف نہیں ہیں۔ 
دیگر بزرگ شعرا،جنہیں میرے ہم عمر افراد نے خود دیکھا یا سُنا ہے،  میں محترم   عصمت اللہ مشفق، محمد عارف، خلیفہ نذر شاہ،، سعادت شاہ (مرحوم)،  احسان علی احسان (چپورسن)، امان اللہ ناچیر، علی داد، دولت قاضی، وغیرہ شامل ہیں۔  محترم عصمت اللہ مشفق نے وخی  کے علاوہ  فارسی میں بھی اچھا خاصا کلام لکھا ہے۔ امید ہے کہ ان کی شاعری مطبوعہ شکل میں جلد منظر عام پر آئے گی۔ 
جدید دور کے شعرا میں نذیر احمد بلبل، علی قربان، سیف الدین سیف، عالم جان دریا، علی احمد شانی، افضل کریم، احمد ریاض احمد، کریم خان ساکا، حمد رہبر، غلام مصطفی، احمد جامی سخی، فضل امین بیگ، محمد امین، جمعہ خان عاصی، امان اللہ ماد،   شریف خان، حبیب الرحمن سلیمانی، سلیم خان، شاہد اختر، اخون بائے ،حاجی بلبل، علی رحمان وغیرہ   شامل ہیں، جن کے کلام کو عوامی مقبولیت حاصل ہے۔یہ حضرات  شعرا کے اس نسبتاً جدید گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں بہت حد تک اعلی تعلیم (بشمول  کالج و یونیورسٹی) تک رسائی ملی ہے۔
 شعرا کے اس گروہ میں شامل علی قربان مغنی صاحب  کی زیادہ تر شاعری مزاحمتی نوعیت کی ہے۔ تاہم، انہوں نے کلامِ پیر ناصر خسرو  بلخی کے ایک حصے کا وخی زبان میں منظوم ترجمہ  بھی کیا ہے، اور دل کو چھو لینے والی  رومانوی شاعری بھی توا تر سے لکھتے ہیں۔ ان کا خاصہ یہ بھی ہے کہ اپنے تازہ کلام کو خود پڑھ کر ریکارڈ کرتے ہیں اور سوشل میڈیا (بالخصوص یوٹیوب) پر نشر کردیتے ہیں۔ 
لسانیات اور انسانی علوم کے ماہر فضل امین بیگ  بھی اپنی شاعری کو ریکارڈ کر کرے سوشل میڈیا اور اپنے ویب سائٹ پر شائع کر دیتے ہیں۔ سیف الدین سیف اور افضل کریم شمشالی نے بھی بہت عمدہ کلام للھا ہے اور ان کا تخلیقی سفر دھوم دھام سے جاری ہے 
یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہوگا کہ اس دور کے وخی شعرا میں سب سے زیادہ شہرت نذیر احمد بلبل کے حصے میں آئی ہے، جنہوں نے اب تک نہ صرف  بہت  اعلی پائے کی رومانی اور عرفانی ادب تخلیق کی ہے، بلکہ ان کے مزاحیہ وخی کلام بھی بہت مشہور ہیں۔ ان کی کتاب "بیاضِ بلبل" کے نام سے شائع ہوچکی ہے،جو پاکستان میں شائع ہونے والی وخی شاعری کی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ 
شعرا کے تیسرے گروہ میں فیض رحیم پوش، دیدار کریم، سناور خان صابر،  مرزا حسین،  علی رحمان، اخون بائے، میر باز میر، رضا بیگ رضا،  شفقت کریم، آصف ماتھور، سید اکبر، عبداللہ بائے، روزی بائے، رحمت کریم، عامر خان (بائے شاہ گون)،غلام قادر پروانہ،  محمد رحیم ،محمد ضیا،  غلام باقر، وغیرہ   شامل ہیں۔  ان کے علاوہ مسعود خان، آزاد زر آبادی ، ابوذرعلی  اور دیگر نوجوان شاعر بہت کم وقت میں اپنے فن کی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ 
نئے لکھنے والے نوجوانوں میں علی احمد جان، مسعود کریم دُر، سید شمشالی اور حبیب، محبت شاہ جیسے اچھوتے انداز میں خیالات اور کیفیات اشعار اور نظموں کی شکل میں بیان کرنے والے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد شعرا ہیں۔ 
ایک خوش آئند حقیقت یہ بھی ہے کہ  وخی زبان میں صرف مردوں نیشاعری نہیں کی ہے۔ متعدد شاعرات  نے بھی اپنے خیالات اور احساسات کے اظہار کے لئے شعر گوئی کا انتخاب کیا ہے۔خواتین کی شعر گوئی کی روایت بہت قدیم ہے۔ آج تک  بعض خواتین کے کلام کو ان کے اولاد کی نسبت سے یاد رکھا گیاہے، جیسے کہ یکشمال کی والدہ ، علاو الدین کی دادی، لوق کی والدہ  اور نذر بوئے کی والدہ سے منسوب گیت  "پیوند" نامی کتابچے میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بختی جمال، عزیز بیگم، روشن زوجہ فیروز ، بی بی جمال وغیرہ کے کلام کے نمونے بھی محفوظ ہیں۔ موجودہ  دور میں لیلی غازی  اور سمیرہ پوش سمیت متعدد خواتین اور نوجوان لڑکیاں وخی میں شعر لکھتی ہیں اور گاہے بگاہے ان کے کلام منظر عام پر آتے بھی ہیں۔  شاعرات  کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔  
گزشتہ چند سالوں کے دوران سوشل میڈیا کے طفیل چین، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان میں منقسم وخی شعرا  بتدریج ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہیں۔ بہت سارے فراموش کردہ الفاظ و تراکیب کا تبادلہ ہورہا  ہے اور زبان کا دامن وسیع ہوتا نظر آرہاہے۔ اشکومن، بروغل اور منقسم وخان میں بھی شعر گوئی کی قوی روایات موجود ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں ان کے بارے بھی مزید پڑھنے اور جاننے کا موقع ملے گا۔ 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ گوجال  (بالائی ہنزہ) میں وخی شاعری کی روایت نہ صرف موجود ہے بلکہ پھل اور پھول رہی ہے۔ یہ ہماری زبان کی بقا کے لئے انتہائی اہم ہے۔ 
سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی عدم دلچسپی یا نااہلی سمجھ لیجئے یا پھر ہماری اپنی کوتاہی، ہم وخی زبان کی شاعری  کی بڑے پیمانے پر طباعت یقینی بنانے میں فی الحال ناکام ہیں۔  وسائل دستیاب ہوں اور جذبہ تعمیر اُبھرے تو ایک ہی سال میں معیاری شاعری کے کئی دیوان چھاپے جاسکتے ہیں۔ تب تک ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔