Thursday, July 21, 2016

لندن کہانی ۔۔۔۔۔ دریا تھیمز کی روشنیاں

تھیمز لندن کا دریا راوی ہے۔ لیکن راوی کے برعکس تھیمز نے اپنی جگہ نہیں بدلا ہے، یا پھر شائد بدلا بھی ہو۔ مجھے نہیں معلوم۔
شہر کے وسط سے گزرنے والے دریا تھیمز نے لندن کی تاریخ کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔کروڑوں سیاح ہر سال تھیمز دیکھتے ہیں۔ چینی اور ہندوستانی سیاح بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ دیگر نسل کے لوگ بھی چل پھر رہے ہیں۔

تھیمز ریور کے ایک کونے پر ایک بلندوبالا قدیم (ڈیڑھ سو سال پرانی) عمارت کو محفوظ کر کے کاروباری مرکز میں بدلا گیا ہے۔ عمارت پر لگی تختی کے مطابق یہی پر ہندوستان اور سری لنکا سے آنے والی کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں۔
تھیمز کے اوپر متعدد پل واقع ہیں لیکن لندن برج اور ٹاور برج کی خوبصورتی، خصوصا رات کے وقت، اپنی مثال آپ ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر ریستوران اور مارکیٹ کھلے ہوے ہیں۔ دونوں کنارے سیاحوں سے بھرے ہوے ہیں۔ ایک مقام پر زورشور سے موسیقی چل رہی ہے۔ پنجابی گانے پر گورے، بھورے اور کالے، سب بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔
دریا میں بڑی بڑی کشتیاں چل رہی ہیں جن میں بیٹھے سیاح تصویر کشی میں مصروف ہیں، یا پھر ٹکٹکی باندھے رنگ بدلتے آسمان یا پھر روشنیوں میں نہائے عمارتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ 
میں اور میرے محترم علی بھائی دریا کے کنارے  مٹر گشت میں مصروف ہیں۔  ایک کنارے پر جنگی جہاز لنگر انداز ہے۔ ٹکٹ خرید کر جہاز کے عرشے تک جانے کا اہتمام موجود ہے، لیکن باہر کی روشنیوں کو چھوڑ کر جنگی جہاز کی دلکش ظلمتوں کو دیکھنے کی طلب نہیں ہوتی ہے۔
پل پر سینکڑوں گاڑیوں اور لوگ گزر رہے ہیں۔ میں لوگوں کی تصویر بنا رہاہوں۔ دوخواتین کیمرے کے سامنے آتی ہیں اور ہوا میں ہاتھ لہرا کر اور خوشی کا اظہار کرتے ہوے تصویر کا حصہ بن جاتی ہیں۔ میں مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وہ اپنی دھن میں مست آگے نکل جاتی ہیں۔
لندن کی بعض سڑکوں کو ہم نے غور سے دیکھا۔ سڑکیں تنگ ہیں، لیکن گاڑیوں کے لئے جتنی جگہ رکھی گئی ہے تقریباً اتنی ہی جگہ پیدل اور سائیکل پر چلنے والوں کے لئے مختص ہے۔
کسی نے بتایا تھا کہ تھیمزکی خوبصورتی رات کو دیدنی ہوتی ہے۔ میں حیلے بہانوں سے اندھیرا چھانے کا انتظار کر رہاہوں۔ علی بھائی بھی میرا ساتھ دے رہے ہیں۔ کیونکہ رات کی خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ میں قید کئے بغیر جانے کی ہمت نہیں ہے۔
دھیرے دھیرے (رات کے دس بجے کے قریب) آسمان کی روشنی کم ہونے لگتی ہے۔ لیکن زمین چمک اُٹھتا ہے۔ کتنا سہانا منظر ہے۔ ہلکی ہوائیں چل رہی ہیں۔ میں اور علی بھائی لندن برج پر کھڑے تصویریں بنانے میں کافی وقت گزارتے ہیں۔ لیکن اس خوبصورتی اور دلکشی کو کیمرے میں قید کرنا ناممکن ہے۔ ہوائیں کیسے قید ہونگی؟ احساس کی تصویر کون بناپایا ہے؟ اور اگر کوئی نہیں بنا پایا تو ہم بھلا کیوں کوششوں میں وقت برباد کرتے؟
ہم ٹرین پکڑ کر ہاسٹل کی طرف نکل جاتے ہیں۔ رات کے بارہ بج چکے ہیں۔ ہم یوسٹن روڑ پر واقع ہندوستانی ریستوران میں داخل ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ریستوران بند ہے۔ "ٹیک اوے" کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم بنگلہ دیشی ریستوران میں داخل ہوجاتے ہیں۔ وہاں بھی یہی جواب ملتا ہے۔ بنگلہ دیشی مالک ٹیک اوے پر ہمیں ڈسکاونٹ بھی دیتا ہے۔ 
 مجبوراً کاغذی تھیلے میں بریانی باندھ کر ہاسٹل کی راہ لیتے ہیں۔

1 comments:

Atiya Writes نے لکھا ہے کہ

بہت دلچسپ سفرنامہ ہے!

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔