Sunday, July 17, 2016

لندن کہانی ۔۔۔۔ عہد رفتہ کے شاندار مظاہر

برطانیہ یوں تو چھوٹا سا جزیرہ ہے لیکن اس ملک نے بہتر تدبیر، جنگی صلاحیتوں، حکمت عملی اور کاروباری و سائنسی برتری کی بنیاد پر دوسرے قوموں کو محکوم بنا کر آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کی۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ سلطنت برطانیہ پر کبھی بھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ ایشیا سے لے کر افریقہ اور یورپ سے سے لے کر امریکہ تک برطانیہ کے فوجیوں، ملاحوں، دانشوروں اور جاسوسوں نے "یونین جیک" لہرانے کی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور ظلم و جبر کی داستانیں رقم کرتے ہوے سلطنتوں اور ممالک کو فتح کرنے میں اپنے ملکہ اور بادشاہ کی مدد کی۔ ہمارا پیارا گلگت بلتستان بھی اس سابق سپر پاور کے زیرِ نگین رہا۔
آدھی صدی سے زیادہ گزر گئے ہیں جب برطانیہ کی ریاست سکڑ کر دوبارہ چند جزیروں تک محدود ہو گئی ہے۔ لیکن لندن میں اس دورِ کہن کی باقیات آج بھی آب وتاب کے ساتھ موجود ہیں۔
 بکنگھم پیلس کی طرف جاتے ہوے ایک بڑے سے گیٹ کے اس پار شروع
میں چار چوکور ستون بنائے گئے ہیں جن پر پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال اور بعض دیگر ممالک کے نام بڑے حروف میں لکھے گئے ہیں۔ ستوں کے دوسری طرف ان ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے تاجِ برطانیہ کی وفاداری میں بڑی جنگوں میں حصہ لیا۔ 

یہ چار ستون گویا ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان کی رہائشگاہ یعنی بکنگھم پیلس کی حدود اور اس ریاست کی ماضی اور عالمی اثر ورسوخ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ایک وسیع و عریض اور سرسبزوشاداب باغ کے درمیان سے گزرکر ہم بکنگھم پیلس کے باہر پہنچ جاتے ہیں۔ بڑی سی چوکور عمارت ہے، جس کے آگے دو بہت بڑے گیٹ لگے ہیں۔ عمارت کسی زمانے میں بہت شاندار رہی ہوگی لیکن اب لندن میں اس سے بہت اچھی عمارات موجود ہیں۔ عمارت کا صحن البتہ بہت بڑا ہے۔ اور گیٹ کے سامنے ایک چبوترے کے درمیان آسمان کی طرف اُٹھتی ہوئی ایک شاہکار مینار نما فن پارہ ہے جس پر بہت سارے مجسمے بنے ہوے ہیں۔ فربہی مائل ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ بھی ہے۔ سب سے اوپر سنہری رنگوں میں ڈوبے کچھ دیگر مجسمے ہیں۔ شاندار منظر ہے۔ پرانے زمانوں میں اس کی شہرت دور دور تک ہوگی۔

تھوڑی دیر محل کے گیٹ کے آگے تصویر کشی اور عجیب و غریب کپڑوں میں ملبوس ساکن کھڑے سنتریوں کو دیکھنے کے بعد ہم پیدل ہی ویسٹ منسٹر کی طرف روانہ ہوتے ہیں جہاں برطانیہ کی پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کی رہشگاہ کے علاوہ بہت ساری اہم قدیم اور جدید عمارتیں موجود ہیں۔
تھوڑی دیر پیدل چلنے کے بعد ہم 10 ڈاوننگ سٹریٹ کے پاس پہنچ جاتے ہیں، لیکن گیٹ بند ہے۔ باہر سیاحوں کو ایک جم غفیر ہے۔ جدید ترین اسلحے سے لیس تین پولیس اہلکار سیاحوں کی طرف منہ کیے کھڑے ہیں۔ اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ سیکیورٹی خدشات ہیں۔ ہم لندن آئی (یعنی لندن کی آنکھ) کی طرف چل پڑتے ہیں۔
دریائے تھیمز کے کنارے ایک بہت بڑا چرخہ سا بنا ہے، جس میں لگے گلاس سے بنے ہوے کمروں میں بیٹھ کر گھومتے ہوے لندن کے نظارے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم دریائے تھیمز کے اوپر بنے پل سے لندن آئی کی تصویریں لینے کے بعد بس میں بیٹھ کر لوٹ آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لندن آئی میں بیٹھنے کے لئے ٹکٹ میسر نہیں۔ شائقین کی بڑی تعداد پہلے سے ٹکٹ خریدے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ پل پر سینکڑوں افراد کیمرے لئے اپنی، دوسروں کی یا ایک دوسرے کی تصویریں کھینچنے میں مصروف ہیں۔
ہم بس سے شہر کے نظارے دیکھتے ہوے ایجویر نامی سٹریٹ کی طرف جاتے ہیں۔ ایک عمارت نظر آتی ہے، جسے ویسٹ منسٹر ایبے کہا جاتا ہے۔ اس عمارت میں برطانیہ کے بادشاہ مدفون ہیں۔ پاس میں ہی ایک اہم ترین گرجا گھر ہے۔
راستے میں ہائیڈ پارک پڑتا ہے، جس کا حجم اسلام آباد میں واقع ایف نائن پارک سے میرے اندازے کے مطابق دو گنا یا پھر اس سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔ ہم اس پارک میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد بکنگھم پیلس کی طرف نکل گئے تھے۔ شاندار پارک ہے جس کے بیچ میں ایک بڑی سی جھیل ہے جس میں پرندے تیر رہے ہیں۔ جا بجا مجسمے نصب ہیں، جن کے قریب سبزہ زاروں پر ہزاروں لوگ بیٹھے خوش گپیوں یا پھر مطالعے میں مصروف ہیں۔ 
کتابیں پڑھنے والے آپ کو زیر زمین ٹرین پر بھی بہت سارے ملیں گے۔ مطالعے کے شوقین ٹرین میں کھڑے کھڑے بھی کسی کتاب کو پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
ایجویر سٹریٹ عربوں کا علاقہ ہے جس کے عقبی حصے میں اہم ترین سیاسی و کاروباری شخصیات کے گھر موجود ہیں۔ عقبی علاقہ مے فیر بھی کہلاتا ہے۔ گھروں کے دروازے سڑک پر ہی کھلتے ہیں۔ کوئی چاردیواری یا کمپاونڈ نہیں ہے۔ ایک گھر کے سامنے دو مسلح پولیس افسران کھڑے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر کا گھر ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اسی محلے میں ہمارے جنرل مشرف اور وزیر اعظم نواز شریف کے گھر بھی موجود ہیں اور بہت سارے دیگر ممالک کے سابق و موجودہ حکمران بھی اسی علاقے میں موجود مکانات کے مالک ہیں۔ شائد اسی لئے کئی اندر سے آواز آئی کہ اس علاقے کو محلہ جیب کتراں کہا جاسکتا ہے۔
ایک عراقی ریستوران میں خوش زائقہ کھانا تناول کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر ڈبل ڈیکر بس میں بیٹھ کر اپنے ہوسٹل کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔