Wednesday, August 10, 2016

لندن کہانی - برٹش میوزیم کی انوکھی شان

لندن کا 'برٹش عجائب گھر' مختلف حوالوں سے اپنی مثال آپ ہے۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ عظیم الشان میوزیم دنیا کی تاریخ کے چنیدہ گوشے اپنے پہلو میں لئے 1753 سے ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ چار صدیوں کے دوران اس عجائب گھر نے شاندار ترقی کی ہے۔ آج کل برٹش میوزیم میں دس (10) شعبہ جات قائم ہیں، جن میں نوادرات کی دیکھ بال، تاریخ پر تحقیق اور دیگر امور کے حوالے سے کام ہوتا ہے۔
خوبصورت انداز میں مختلف تہذیبوں اور ممالک سے خریدے، چھینے یا چرائے گئے آثار قدیمہ کو محفوظ رکھاگیا ہے۔ کروڑوں لوگ ہر سال محفوظ شدہ اشیا دیکھنے آجاتے ہیں۔ ہم نے عجائب گھر میں ہر رنگ اور نسل کے انسانوں کو اپنے اجداد کی یادگاروں کا معائنہ کرتے اور تصویریں نکالتے دیکھا۔
میوزیم میں مصر، افریقہ، ایشیا، مشرق وسطی، یورپ، برطانیہ، روم، بدھ مت، ہندومت، اسلام، ہندوستان اور بہت سارے دیگر ممالک اور مذاہب سے متعلق آثار قدیمہ موجود ہیں۔
یہ نوادرات برطانوی اور دیگر یورپی شائقین، ماہرین اور قابضین کے ذوق کی عکاسی کرتی ہیں۔ کیونکہ جو اشیا نوادرات کے ان شوقین افراد کو پسند آئیں انہوں نے اپنے ذاتی خزائن میں اکٹھے کر لئے اور پھر لندن میوزیم میں رکھوا دئیے۔
ہم نے عجائب گھر کا محض ایک حصہ دیکھنے کا منصوبہ بنایا تھا، جسے کنگ ایڈورڈ دی سیونتھ گیلیریز کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن وقت کی تنگی کے باعث یہ حصہ بھی پوری طرح نہ دیکھ سکیں۔ یاد رہے کہ میوزیم کے اس حصے میں شاہ ایڈورڈ ہفتم ( 1859-1939) کے ذاتی خزانے سے ہزاروں نوادرات شامل ہیں۔ اس عمارت کے علاوہ عجائب گھر میں سات دیگر عمارات شامل ہیں، جنہیں دیکھنے کا ہمیں موقع نہیں مل سکا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ عجائب گھر مکمل طور پر دیکھنے کے لئے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہے۔

میوزیم میں اسلامی تاریخ سے متعلق نوادرات بھی موجود ہیں، جنہیں ہم نے تفصیل سے دیکھا۔ اس حوالے سے کسی روز دوبارہ بات چیت ہوگی۔
ہمیں عجائب گھر کے ایک حصے میں شیر کا ایک مجسمہ ںظر آیا اور ایک دوسرے حصے میں حنوط شدہ لاشیں۔ دونوں آثار قدیمہ دیکھ کر ہمیں اپنے ملک کے بعض سیاستدان بہت یاد آئے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے سیاستدان عجائب گھر میں رکھنے کے قابل نہیں ہیں، کیونکہ ایسی عمارتوں میں صرف نادر اشیا رکھی جاتی ہیں۔







برٹش میوزیم لندن کا ایک بڑا سا کمرہ اسلامی آثار قدیمہ کے لئے مختص ہے۔ اس کمرے میں مختلف اشیا قرینے سے رکھے گئے ہیں۔ لکڑی کے ٹکڑوں اور پتھرکے سلوں پر کندہ قرآنی آیات اور دیگر عربی عبارتیں خصوصا دلچسپی کا حامل تھیں۔
عربی عبارات کے علاوہ قدیم سائنسی ایجادات اور آلات، کپڑے، سامانِ حرب وضرب اور آرائش و زیبائش کے اوزار بھی بڑی تعداد میں اس کمرے کے اندر رکھے گئے ہیں۔ اس ہال میں گھوم کر اندازہ ہوتا ہے کہ جسے ہم اسلامی دنیا کہتے ہیں وہ یک رنگی نہیں ہے بلکہ اس کے ہزاروں رنگ ہیں اور ہر رنگ اپنے اندر ایک جدت، خوبصورتی اور تازگی رکھتا ہے۔
انہی حسین رنگوں کا امتزاج اسلامی تہذیب کسی زمانے میں غالب تہذیب کے طور عالمی افق پر چھایا ہوا تھا۔ علم و فن کے سوتے مسلمانوں کے ممالک اور علاقوں سے پھوٹتے تھے۔
لیکن اب یہ عالم ہے کہ ہم صنعتی، سائنسی اور معاشی طور پر زوال کا شکار ہیں۔ ہماری تخلیقی صلاحیت معدوم ہو کر ختم ہوگئی ہے اور ہم ہر چیز، حتی کہ علم اور فکر، کے لئے بھی خود پر انحصار نہیں کرسکتے ہیں۔





لندن کی یادوں کو الفاظ میں سمیٹتی اس تحریر کا موضوع بھی پچھلے کی طرح برٹش میوزیم میں رکھی اسلامی تہذیب سے تعلق رکھنے والی نوادرات ہیں۔
یہ ایک تکلیف دہ سچ ہے کہ تحقیق کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے ہم سائنسی میدان میں فی الحال کوئی خاص تیر نہیں ماررہے ہیں۔ لیکن ماضی کے بعض نامور مسلمان سائنسدان نہ صرف تحقیق کرتے تھے بلکہ ان کی ایجادات بھی تھیں۔ ان ایجادات کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ برٹش میوزیم کے اسلامی سیکشن میں البتہ بعض آلات رکھے گئے ہیں جن کو اس دور کے مسلمان محقیقین اور سائنسدانوں نے ایجاد کیا تھا۔
ان آلات میں ایک قطب نما (کیمپس)، ایک کیلنڈر، بحری جہازوں میں استعمال ہونے والے کچھ آلات موجود ہیں، جو عظمتِ رفتہ کی یاد تازہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔
ان آلات پر عربی زبان میں عبارات اور اشارات کندہ ہیں، جس طرح سے آجکل تمام ایجادات اور مصنوعات پر عموماً انگریزی تحریریں ہوتی ہیں۔
اللہ کرے کہ ہم بھی تعلیم اور تحقیق کے راستے پر چل کر عصرِ حاضر میں کوئی مقام حاصل کرسکیں۔




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔