Friday, July 15, 2016

لندن کہانی - عظیم الشان عمارتوں کا منظم شہر

آج صبح سویرے سے ہم سمر پروگرام برائے اسلام کے سیشنز میں مصروف رہے۔ پورا دن تاریخ، فلسفہ، عقائد اور مذہب کی اکیڈمک سمجھ پیدا کرنے کی کوششوں میں گزرا۔ یہ سلسلہ اگلے چھ دنوں تک جاری رہے گا۔ اس بظاہر خشک موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے بات چیت ہوگی۔

لندن کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں رات نوسے ساڑھے نو بجے تک روشنی رہتی ہے۔ یعنی دن کا سما ہوتا ہے۔ ہمارے لئے سورج کی روشنی کی موجودگی میں ڈنر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے مطابق ڈنر رات کے اندھیرے میں ہی ہونا چاہیے۔
کھانے سے یاد آیا کہ کل رات ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ پر ہم نے بار بی کیو لکھا دیکھ کر کھانا آڈر کیا۔ ایک ساتھی نے ٹوکا، اور کہا کہ کیوں حرام کھانا چاہتے ہو؟ ہمیں لگا کہ شائد لاہور کی طرح گدھے کا بار بی کیو بنایا ہوگیا۔ ہماری کنفیوژن دیکھ کر ساتھی نے کہا کہ بار بی کیو کے نیچے "بیکن" لکھا ہوا ہے۔ یعنی اس میں خنزیر کا گوشت شامل ہے۔ آرڈر کینسل کر کے کسی اور کھانے کا انتظام کیا گیا۔۔۔ ورنہ انجانے میں ہم خنزیر کا گوشت کھاتے!! ویسے ہمیں پہلی بار لندن آکر یہ معلوم ہوا کہ خنزیر کے گوشت کے لئے بیکن کی اصطلاح مستعمل ہے۔
خیر، آج سیشنز ختم کرنے کے بعد فارغ وقت میں لندن کے کچھ مزید حصے دیکھے۔ بہت ساری عمارتوں کے سامنے سے گزرنے کا موقع ملا۔ ان عظیم الشان عمارتوں میں میوزیمز، متعدد تعلیمی، ثقافتی اور تحقیقی ادارے قائم ہیں۔
بتایا گیا کہ نیچرل ہسٹری میوزیم اور میوزیم آف لندن کو پوری طرح دیکھنا ایک دن میں ممکن نہیں ہے۔ امید ہے کہ ان عجائب گھروں کودیکھنے کا موقع ملے گا۔ عمارتوں کی بیرونی زیبائش و آرائش قابلِ دید ہے۔ عمارتوں میں جابجا مجسمے نصب ہیں اور رومن فنِ تعمیر کے آثار نمایاں ہیں۔
پرانی عمارتوں کو جس خوبصورت انداز میں محفوظ رکھا گیا ہے اس کی داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا ہے۔ سڑکیں صاف ستھری ہیں۔
طرح طرح کے کپڑوں میں ملبوس ہزاروں خواتین اور مرد بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ادھر سے اُدھر چلتے جارہے ہیں۔ کوئی کسی پر آواز نہیں کستا۔ مرد رک کر ننگی ٹانگوں والی خواتین کو نہیں گھورتے۔
لندن والوں کی ایک اور بات جو ہمارے دل کو بھائی وہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں خواتین و حضرات سائیکلوں پر چل رہے ہیں۔ سڑک کنارے سائیکیں کھڑی ہیں۔ مشین میں سکے ڈالنے کے بعد سائیکل نکال کر لا جائیں، گھوم پھر کر واپس سائیکل واپس کردیجئے۔ شہر میں ٹیکسیاں اور بسیں بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔ لوگ پبلک ٹرانپسورٹ استعمال کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ بسوں کی حالت بہتر ہے، اور وقت پر منزل کی طرف نکل جاتی ہیں۔ کوئی شور کرنے والا کنڈیکٹر نہیں۔ مسافروں کو ایک دوسرے سے چھیننے کے لئے ریسنگ نہیں۔ چھینا جھپٹی نہیں۔ منظم قوم کے منظم شہری ہیں۔
ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے سیکھنے کا باب بند کردیا ہے، اور صرف دوسروں کو سکھانے اور سدھارنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔۔۔۔ اور اس میں بھی شدید قسم کی ناکامی کا سامنا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔