Saturday, July 16, 2016

لندن کہانی ۔۔۔۔ نشیلی راتیں، ڈگمگاتے قدم

ایک اور دن سنجیدہ دینی موضوعات پر لیکچر سنتے گزر گیا۔
لندن کی راتیں نشیلی اور روشن ہیں۔ سورج غروب ہوتے ہی رات ہوجاتی ہے۔ ہمارے گاوں میں سورج کے غروب ہونے اور اندھیرا چھانے میں اچھا خاصا وقفہ ہوتا ہے۔ یہاں اندھیرا چھانے سے پہلے ہی سڑکوں اور عمارتوں کی روشنیاں جل اُٹھتی ہیں۔ سڑکوں پر چہل پہل بڑھ جاتی ہے۔ شراب خانوں کے باہر نوجوان اور ادھیڑ عمر جوڑے اور گروہ منڈلانے لگتے ہیں۔ بعض ریستورانوں کے باہر گاہکوں کی لمبی قطاریں ہوتی ہیں۔


چکمدار اور روشن ریستورانوں میں میز کے گرد بیٹھے جوڑے پاوں سے پاوں ملائے، ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے، ہنسنے مسکرانے اور سرگوشیاں میں رازونیاز کی باتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہم جیسے محض دیکھ کر گزر ہی سکتے ہیں۔ بلکہ دیکھنے سے بھی ڈر لگتا ہے، کیونکہ اس ماحول میں کوئی کسی کو نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ کہیں سڑکوں کنارے آپس میں لپٹے جوڑے بوس وکنار میں مصروف ہیں تو کہیں ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے نوجوان جوڑے سر آپس میں ملائے سانسوں کا تبادلہ کررہے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی رُک کر انہیں غور سے دیکھے، یا کچھ کہے، سنے۔ ہم بھی کن انکھیوں سے دیکھتے ہوے گزرجاتے ہیں۔۔۔۔ اور کوئی چارہ جو نہیں!


سڑکوں پر لندن کے مشہور سُرخ رنگ کے ڈبل ڈیکر بس چل رہے ہیں۔ بسوں کے اندر مسافر بیٹھے واضح نظر آرہے ہیں۔ ٹیکسیوں کی چھتوں پرقمقمے روشن ہیں۔ ایک ٹیکسی کی چھت پر لگے روشن بورڈ پر Pray For France درج ہے۔ بعض عمارتوں کو بھی فرانس کے قومی رنگوں میں نہلا کر روشن کیا گیا ہے۔ کل فرانس کے ایک شہر میں کم از کم 83 لوگ دہشتگردی کے ایک واقعے میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ آج میں نے اپنا پاسپورٹ جیب میں رکھا ہے، کیونکہ مجھے خدشہ یہ ہے کہ شائد فرانس میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعے کے بعد پولیس والے پکڑ کر پوچھ گچھ کریں گے۔
لیکن پاسپورٹ ساتھ ہونے سے خوف میں کمی نہیں آتی، کیونکہ نام محمد ہے اور پاسپورٹ پاکستان کا!!

شہر روشن ہے، لیکن روشنی سے افسردگی جھلک رہی ہے۔ اور میرے دل پر ہلکا سا انجانا خوف طاری ہے۔۔۔۔
گھومتے گھامتے یوسٹن نامی سڑک پر نکل جاتے ہیں۔ عقبی گلی میں ہندوستانی اور بنگلہ دیشی کھانوں کے ریستوران ہیں۔ ہم تختی پر درج قیمتیں دیکھتے ہیں۔ اتنے میں ایک بانگلہ بھائی باہر نکل کر ہمیں اپنائیت کے ساتھ اندر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اندر ٹی وی پر ترکی میں جاری فوجی انقلاب کی خبریں چل رہی ہیں۔ ہم لذیذ بریانی کھا کر ہی نکلتے ہیں۔

راستے میں ڈگمگاتے قدموں والے ادھر اُدھر ڈول رہے ہیں۔ شہر روشن ہے، لیکن ہم اجنبی شہر کے خوفزدہ راہی ہیں۔ دامن بچا کر نکل جاتے ہیں۔ لندن کی نشیلی رات جوان ہے۔
ہم واپسی کی راہ لیتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔