Tuesday, September 15, 2015

سرخ اژدھے کی ہمسائیگی


شاہراہِ قراقرم کے تباہ شدہ حصے کی جگہ پر 24 کلومیٹر طویل متبادل سڑک، سرنگوں اور پلوں کی تعمیر کم مدت میں اس لیے ممکن ہوئی ہے کیونکہ اس منصوبے کی کامیابی میں عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے براہِ راست مفادات تھے۔ اگر صرف پاکستانی انجینئرز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا تو یہ منصوبہ اگلی صدی تک مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔

لواری ٹنل کی مثال لیجئے۔ چترال کی آبادی گوجال (ہنزہ) کی آبادی سے بہت زیادہ ہے اور چترال کی دفاعی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن پھر بھی لواری ٹنل بھٹو دور میں شروع ہونے کے بعد کھدائی مکمل ہونے کے باوجود مکمل نہیں ہوپارہاہے۔

وادی گوجال (ہنزہ) کے مکین خوش قسمت ہیں کہ ان کو چین کی براہِ راست ہمسائیگی میسر ہوئی ہے۔ لیکن اس عظیم سرخ اژدہا کی ہمسائیگی کے نقصانات بھی بہت ہیں۔ ابھی ہمیں خود کو ان نقصانات سے بچانے کے لئے تیار کرناپڑے گا۔ دور رس تدبیر کرنی پڑے گی۔ زمینوں کی فروخت کے عمل پر غور و فکر کرنا پڑے گا۔ اپنی صلاحیتوں کو یکجا کرنا پڑے گا اور فضول اور سطحی قسم کے تنازعات کو یکسر ختم کرنا پڑے گا۔
اگر ایسا نہیں ہوا تو انہی سڑکوں اور سرنگوں کے ذریعے ہونے والی تجارت کے نتیجے میں ہماری مقامی معیشت کی تباہی کا سامان پیدا ہوگا۔

اس وقت گلگت بلتستان بالعموم، اور ہنزہ، بالخصوص، کو ایک ایسی باشعور اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے جو مستقبل بینی اور عوام کو موبلائز کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہو۔ لیکن ایسی قیادت کا فی الوقت دور دور تک کوئی وجود نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔