Thursday, March 05, 2015

مردوں کا عالمی کرکٹ کپ ۔ تصویری خاکہ

آگے لکھنے سے پہلے ایک وضاحت لازمی ہے کہ اس بلاگ کے ٹائٹل میں  لکھے   لفظ مردوں میں  م کے اوپر زبر لگا ہواہے۔  اس لئے اس لفظ کر مرد ہی پڑھا جائے، یعنی وہ جو زن کی مخالف جنس ہے۔

ہاں بھائی ۔ مردوں کا عالمی کرکٹ کپ ہی تو ہے یہ۔

  جی ، بالکل۔  نام سے تو ایسا لگتا ہے کہ ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں ساری دنیا حصہ لے رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں دنیا کی نصف آبادی (خواتین) کا کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں ہے۔ 


جی ، مانتا ہوں کہ وہ تالیاں پیٹ سکتی ہیں، اپنے پسندیدہ ٹیموں کی شرٹ پہن سکتی ہیں ، چہرے اور بالوں کو رنگ سکتی ہیں، اور شوروغل میں بھی بجا طور پر حصہ لے سکتی ہیں۔


کبھی کبھار فرطِ جذبات سے رو دینا ، اور ٹی وی والوں کے لئے روتے ہوے دلچسپ فوٹیج تیار کرنا اس کے علاوہ ہے۔
 لیکن اس عالمی ٹورنامنٹ میں خواتین کا کردار بس اتنا ہی ہے۔


نہ تو ہم نے کبھی آج تک اس ٹورنامنٹ میں کوئی خاتو ن ایمپائر دیکھا ہے، نہ تھرڈ ایمپائر۔ حد تو یہ ہے کہ خواتین کے لئے مخصوص ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں بھی ایمپائرنگ کے فرائض مرد ہی سرانجام دیتے ہیں۔  


ایک اور حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کا میدان تیار کرنے والے کا  بائے ڈیفالٹ نام گراونڈز مین ہے، یعنی اس شعبے میں بھی خواتین (وومن) کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے،جیسے کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے۔



یہ بھی قابلِ غور ہے کہ کرکٹ پر تبصرہ کرنے والوں (کمنٹری )میں بھی کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔ حالانکہ تبصرہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں خواتین  کی ماہرانہ خدمات  ہمہ وقت دستیاب رہتی ہیں۔ 

میں اپنے ایک دوست کے ساتھ اسی موضوع پر گفتگو کر رہا تھا۔ انہوں نے مجھے ٹوکا، اور کہا کہ صرف مردوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ اس میں بچے بھی کھیلتے ہیں۔ اور پھر انہوں نے مجھے پاکستانی ٹیم کی نیچے دی گئی  تصویر دکھائی۔


تو کیا یہ ایک عجیب بات نہیں ہے کہ زیادہ تر  برطانوی نو آبادیات  پر مشتمل  چندممالک  کا ایک گروہ کرکٹ کھیل کر اسے پوری دنیا کا  کپ قرار دیتے ہیں، حالانکہ دنیا میں موجود تقریبا ۲۰۰ ممالک میں سے صرف درجن بھر ہی  ممالک کرکٹ کھیلتے ہیں۔ 
اور اس پر مستزاد یہ کہ  ان درجن بھر ممالک میں سے بھی صرف مرد ہی اس مقابلے میں شریک ہوسکتے ہیں۔ خواتین ، جو ان ممالک میں آباد ی کا نصف حصہ بناتی ہیںِ صرف تالیاں پیٹنے ، شور کرنے، بالوں کو رنگنے وغیرہ میں مصروف رہتی ہے؟
تو کیا ایک ایسے مقابلے کو صرف عالمی مقابلہ کہا جاسکتا ہے؟  بھائی ، آپ کو بے شک بُرا لگے ، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف مردوں کا عالمی کپ ہے۔
نہیں  یار، میں یہ باتیں اس لئے نہیں کر رہا ہوں کہ ۸ مارچ کو خواتین کا عالمی دن ہے۔  آپ مجھ پر الزام مت لگائیں۔
جی، کیا کہا؟
عالمی مقابلہ کہلوانے کے لئے کیا کیا جائے؟
بھائی میرے حساب سے  اس ٹورنامنٹ میں کم از کم خواتین کی شرکت لازمی  ہونی چاہیے ۔ بطور شائقین نہیں، بلکہ بطور کھلاڑی بھی۔
نہیں یار ، میں پاگل نہیں ہوا ہوں۔
جی جی۔ میں مخلوط قومی ٹیموں کی بات کر رہاہوں۔
ارے بھائی، مخلوط میں کیا خرابی ہے؟
ملک میں  تعلیم مخلوط ہے، ریسٹورنٹ مخلوط ہے، فوج مخلوط ہے، ایر فورس مخلوط ہے، نیوی مخلوط ہے، ریلوے کا ڈبہ، جہاز ، بس، وین ہر چیز مخلوطیت کے فلسفے پر چل رہی ہیں تو پھر قومی کرکٹ ٹیم مخلوط کیوں نہیں ہوسکتی؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہم نے خواتین اور مردوں کے عالمی مقابلے کروا کر معاشرے کو کمپارٹمنٹلائز ڈ کر دیا ہے؟
مشکل انگریزی نہیں  جھاڑ رہا ہوں یار۔مطلب یہ ہے کہ معاشرے کو  کمپارٹمنٹس میں تقسیم کر دیا ہے۔ یعنی، کرکٹ کی ریل گاڑی میں اب بھی خواتین کا ڈبہ مردوں کے ڈبے سے الگ ہے ۔
ہے نا درست بات؟
آخر کیوں صرف انور اور اکرم ہی اوپننگ کرے، یا پھر انضمام اور یونس ون ڈاون پر کھیلے؟ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ شائستہ اور عرفان میچ کی اوپننگ کرے۔  شکنتلا ، جی سندھ کی شکنتلا، چوتھے نمبر پر آئے اور چھٹے نمبر پر پختونخواہ کی پلوشہ جم کر کھیلے، جب پانچویں  نمبر پر کھیلنے والا شاہد آفریدی آوٹ ہو کر پویلین لوٹ چکا ہو۔ 
لگ رہا ہے نہ دیوانے کا خواب۔



ہنسو بھائی۔ ہنسو۔  ہر خواب شروع میں دیوانے ہی کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔