Wednesday, September 30, 2015

فرقہ واریت اور بدامنی

ابھی خبر پڑھی کہ ہندوستان کے ایک گاوں میں مسلمان باپ بیٹے کو مقامی لوگوں نے گائے کا گوشت کھانے اور گھر میں ذخیرہ کرنے کے "جرم" میں اتنا زدوکوب کیا کہ باپ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، جبکہ بیٹا ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مصروف ہے۔ خبر میں یہ بھی لکھا ہے کہ مقامی مندر سے اعلان ہوا کہ فلاں کے گھر میں گائے کا گوشت استعمال کیا جارہاہے۔ اعلان سنتے ہی ایک مشتعل ہجوم گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ اور مارکٹائی شروع کردی۔

ہندوستان ہی کی ایک اور خبر پڑھی کہ کانپور کے ایک گاوں میں مقامی لوگوں نے ایک شخص کو پاکستانی جاسوس ہونے کے شبے میں مار مار کر قتل کر ڈالا۔ مقامی لوگوں نے اس شخص کو، جو گاوں میں اجنبی تھا، چور ہونے کےشبے میں پکڑ کر مارناشروع کردیا تھا۔ خبر میں ایک مقامی شخص کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ قتل ہونے والے شخص پر پاکستانی جاسوس ہونے کا شبہ اس لئے ہوا کیونکہ بہت زیادہ مار کھانے کے بعد اس نے "اللہ"، "اللہ" پکارنا شروع کردیا۔

کل ایک خبر پڑھی تھی کہ پنجاب (پاکستان) میں پولیس اور مقامی لوگوں نے ایک فرقے (احمدیہ) سے تعلق رکھنے والے افراد سے قربانی کے جانور چھین لئے تھے،اور بعض کو زدوکوب بھی کیاتھا۔ ہمارے ملک میں جماعت احمدیہ کے افراد کو "اسلام علیکم" کہنے، کلمہ پڑھنے، قبروں کے کتبوں پر آیاتِ قرآنی لکھوانے، وغیرہ کی پاداش میں سزائیں دی جاتی ہیں، اور سرعام ان کی چھترول بھی ہوتی ہے۔ بہت ساروں کو قتل بھی کیا گیا ہے۔
یہ دونوں واقعات بظاہر مختلف نظر آتے ہیں، لیکن میرے خیال میں ان میں بہت ساری مماثلتیں بھی ہیں۔

پاکستان میں جماعتِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کم تعداد میں ہیں۔ ان کے عقائد سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد متفق نہیں ہے، اور پاکستانی آئین میں ان کو غیر مسلم قراردیا گیا ہے۔ اور انہیں فتنہ اور فساد کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

کچھ یہی حالت ہندوسان میں مسلمانوں کی ہے۔ ان کی تعداد نسبتا کم ہے۔ ہندوستانیوں کی بڑی تعداد ان کے عقائد سے متفق نہیں ہیں۔ اور ہندوستانیوں (خصوصا آر ایس ایس اور حکمران جماعت کے سیاسی قبیلے سے تعلق رکھنے والوں ) کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کو فتنہ اور فساد کی جڑقراردیتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہندوستان میں بنیاد پرست سیاسی جماعت بی جے پی کے برسرِ ِ اقتدار آنے کے بعد غیر ہندووں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کی حکومت ہی کے دوران گجرات میں خونریز فسادات ہوے تھے جس میں 2000 سے زائد افراد مارے گئے تھے، اور ان میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ اب بھی ہندوستانی کابینہ سے تعلق رکھنے والے بہت متعدد وزرا فرقہ وارانہ بیانات دینے کی وجہ سے میڈیا میں بدنام ہوے ہیں۔ 

ایسا لگتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ چل رہا ہے۔ یعنی جہاں پر ہم مضبوط اور اکثریت میں ہیں وہاں ہم اپنی من مانی کرتے ہیں اور جہاں دوسرے مضبوط ہیں وہاں وہ اپنی کرتے ہیں۔
دوسروں کو نیچے دکھانا، کمزوروں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا، اپنے نظریات تھوپنا، اور تشدد کے راستے پر چل نکلنا گویا ہماری زندگی کا حصہ بن  چکا ہے۔ یہ صورتِ حال معاشرے کے لئے تباہ کن ہے۔اور سچی بات یہ ہے کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔