بچے بہت نازک ہوتے ہیں .دنیا کے تقریبا ہر معاشرے میں ان کی نزاکت اور معصومیت کی مثال دی جاتی ہے۔ کوئی انہیں پھولوں سے تشبہیہ دیتا ہے تو کوئی فرشتہ کہتا ہے۔ والدین کے لیے بچے نورِ چشم اور دل کا چین ہیں تو بہن بھائیوں اور خاندان کے لیے محبتوں بھرے تحفے اور نعمت خداوندی۔ بڑی عمر کے افراد پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی خواہش لیے جیتے ہیں اور ان کی درازی عمر ،اچھی صحت اور بہتر مستقبل کے لیے روز دعائیں مانگتے ہیں۔ بچوں کی شرارتیں، معصوم حرکتیں اور نادانیاں دیکھ کر گھر کے سب لوگ خوش ہوتے ہیں اور عموماً بچوں سے سب کو پیار بھی ہوتا ہے۔ یہ سب حقیقتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ پھول جیسے بچے انتہائی حساس اور غیر محفوظ بھی ہوسکتے ہیں۔ خصوصا ایسے بیمار اور انسانیت سے عاری معاشروں میں جن کی بھاگ دوڑ بصیرت ، انسانیت اور قابلیت سے محروم افراد اور نااہل اداروں کے ہاتھ میں ہو۔
غیر محفوظ معاشروں میں اگر والدین احتیاط نہ برتیں اور بچوں اور بچیوں کی بہتر انداز میں تربیت نہ سکے تو کسی بھی ناخشگوار واقعے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ بچے کی زندگی ہمیشہ کیلیے متاثر ہو جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں بچوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقات، بشمول والدین ، رشتہ دار اور خاندان کے دوسرے افراد ، کے ہاتھوں بچے مختلف طریقوں سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر جنسی استحصال کا شکار بنتے ہیں۔ عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ کم آمدنی والے طبقات میں بچوں کی پرورش اور تعلیم پر توجہ دینا والدین کے لیے ممکن نہیں ہوتا ، شاید اسی لیے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کم آمدنی والے خاندانوں کے بچے دوسروں کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ حالانکہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زیادہ اور کم آمدنی والے خاندانوں اور دونوں طبقوں کے بچے ایک ہی طرح غیرمحفوظ ہوتے ہیں۔
ساحل نامی غیر حکومتی ادارے کی ایک تحقیقا تی پورٹ کے مطابق سال ٢٠١٢ میں پاکستان بھر میں بچوں پر جنسی تشدد میں بارہ (۲۱) فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والوں میں ٧١ (اکہتر) فیصد لڑکیاں اور ٢٩ (انتیس) فیصد لڑکے شامل ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کل درج شدہ واقعات ، جنکی تفاصیل اخبارات سے حاصل کی گئی تھی، میں صفر اعشاریہ چار فیصد کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔
سال ٢٠١٣میں ساحل کی حالیہ سالانہ رپورٹ کے مطابق زیادہ بچے زیادتی کا شکار ہوے۔ اعداد و شمار کے مطابق تشدد اور زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی شرح گزشتہ سال کی نسبت ساڑھے سات فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ ۲۰۱۳میں جنسی تشدد کا شکا ر ہونے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد ۳۰۰۰سے تجاوز کر چکی ہے. ایسے بچوں اور بچیوں کی تعداد پنجاب میں سب سے زیادہ ، تقریبا ۲۱۰۰، سندھ میں ۵۸۳، خیبر پختونخواہ میں ۱۳۹، وفاقی دارالحکومت میں ۱۳۴، بلوچستان میں ۱۰۲، آزاد کشمیر میں ۳۵ جبکہ گلگت بلتستان میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ۲ (دو) رپورٹ مقامی اخبارات میں شائع ہوے.
یاد رہے کہ یہ اعدادوشمار اخبار میں رپورٹ ہونے والے واقعات پر مبنی ہے. عموما اس طرح کی خبریں، خصوصا دور دراز علاقوں میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اخباروں میں رپورٹ نہیں ہوتے. اسلیے خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک بھر کے تمام علاقوں میں زیادتیوں کے واقعات کی اصل تعداد اس پورٹ میں بیان شدہ اعدادوشمار سے بہت زیادہ ہے. ساحل کے سالانہ رپورٹ میں اسلام آباد میں زیادتی کے شکار بچوں اور بچیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ شائد یہی ہے کہ یہاں میڈیا دوسرے علاقوں، شہروں، کی نسبت زیادہ متحرک ہے اور آبادی بھی کم ہے اسلئے واقعات کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان میں بھی بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بہت سارے واقعات ہوتے ہیں لیکن بوجوہ یہ واقعات میڈیا کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں. اس ضمن میں باقاعدہ اور منظم تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ حقائق کو منظر عام پر لایا جا سکے.
اس تشویش ناک صورتحال کو بدلنے میں والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ تعلقات کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر والدین اور اولاد کے درمیان اعتماد، اخلاص اور محبت کا رشتہ ہوگا تو بچے بے دھڑک اپنے مسائل، در پیش حالت اور روزمرہ کے معمولات سے ان کو باخبر رکھیں گے، جسکی بنیاد پر والدین کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی بہتر انداز میں تربیت اور رہنمائی کر سکیں گے . اس کے برعکس، اگر اعتماد اور محبت کا رشتہ نہیں ہوگا تو بچے اپنے بارے میں والدین سے کسی بھی موضوع پر کبھی بھی بات نہیں کر سکیں گے. ان کے مسائل دبے رہیں گے اور معاشرتی اور ذاتی مسائل کا شکار ہونے کے خطرات بڑھ جائیں گے. دیکھا گیا ہے کہ اگر والدین بچوں اور بچیوں کو ڈانٹتے رہتے ہیں ، یا مارپیٹ کرتے ہیں تو ایسی صورتحال میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اعتماد، محبت اور احترام پر خوف غالب آجاتا ہے جو مزید بگاڑ پیدا کر سکتا ہے. یاد رہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ بچوں کی زندگی کے ہرپہلو کو بنانے اور بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے.. اسکا تعلق صرف جنسی استحصال سے نہیں ہے.
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین اور معاشرے کے دوسرے افراد استحصال کے شکار بچوں کو اعتماد دینے اور ان کی مدد کرنے کے بجائے انہی کو مورد الزام ٹہراتے ہیں ، جانے انجانے میں انکی شخصیت پر رقیق حملے بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھار کھلے عام تضحیک بھی کرتے ہیں. یعنی یہ معاشرہ ظالم کو روکنے اور ٹوکنے کی بجائے مظلوم کو مزید دکھ اور پریشانی دیتی ہے. یقیناً یہ رویہ انتہائی منفی اور نامناسب ہے کیونکہ اس سے استحصال کا شکار بچہ یا بچی اپنی شخصیت اور اپنے کردار کے حوالے سے سماجی دباؤ کے تحت ابہام کا شکار ہوجاتا ہے جس سے مزید نفسیاتی بیماریاں اور دیگر پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں جنکا براہ راست اثر بچے اور بچی کی شخصیت پر ہوتا ہے . ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض کیسز میں استحصال کے شکار بچے اور بچیاں معاشرے میں تضحیک کے ساتھ جینے کے خوف سے گھروں سے بھاگ کر انجانے میں خود کو اس بیمار اور بے رحم معاشرے کے حوالے کر جاتے ہیں، یا پھر بیچارگی کے عالم میں خود کشی کر لیتے ہیں.
والدین کے علاوہ ایک بہت بڑی ذمہ داری حکومت کی بھی ہے. واضح اور موثر قانون سازی کے ساتھ ساتھ والدین اور بچوں کی اس حوالے سے تربیت کے لیے خصوصی حکمت عملی اور طریقہ کار وضع کرنا لازمی ہے. اسکے علاوہ قانون پر موثر عملدرآ مد بھی لازمی ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جرائم کی بیخ کنی کے لیے کردار ادا کر سکیں.
میڈیا بھی اس حوالے سے حقائق اجاگر کرنے اور جنسی استحصال کے مضر اثرات اور اس حوالے سے موجود قوانین کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے.
غرض بچوں اور بچیوں کی بہتر نگہداشت اور حفاظت کے لیے معاشرے کے تمام افراد ، گروہوں اور اداروں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ کوئی بھی بچہ یا بچی کسی بے حس و بے ضمیر فرد کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہو اور اعتماد کے ساتھ زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کی تیاری کر سکے.
یہی مضمون گلگت بلتستان کے موقر علاقائی اخبار روزنامہ بادشمال (پانچ اپریل ٢٠١٤) میں بھی پڑھی جاسکتی ہے.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔