Wednesday, April 09, 2014

مقدس چور

"ان کچی بستیوں کو ختم ہونا چاہیے۔ آپ کو پتہ ہے یہاں کے رہنے والے لوگ جیب کترے ہوتے ہیں، موبایل چھینتے ہیں اور ڈکیتیاں بھی مارتے ہیں"، وہ خاتون بولی۔ "میری یونیورسٹی کے پیچھے ہی ایک کچی بستی ہے اور ہمیں تو وہاں سے گزرتے ہوے بہت خوف محسوس ہوتا ہے"۔ اس نے حال ہی میں بی اے ایل-ایل-بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

"لیکن اسطرح تو پارلیمنٹ کو بھی ختم ہونا چاہیے"، دوسرا بولا۔

"پارلیمنٹ کے مکین بھی تو لوگوں کی جیبیں کاٹتے ہیں، قومی خزانے پر ڈکتیتیاں مارتے ہیں اور اربوں روپوں کے قرضے معاف کروادیتے ہیں۔ چوری تو چوری ہی ہوتی ہے، چھوٹی ہو یا بڑی۔"

"ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم چھوٹے چوروں اور اٹھایی گیروں کی سرکوبی کے مطالبات تو کرتے ہیں لیکن اربوں روپوں کے چوروں کے حوالے سے خاموش رہتے ہیں"۔ وہ مسلسل بول رہا تھا۔

"یہ کیسا انصاف ہے۔ ان کچی بستیوں میں ان لوگوں کو بسایا کس نے؟ ان سے پیسے لے کر ان کو زمینیں دلوائی کس نے؟". اسکی آواز میں تلخی آچکی تھی.

"کیا کوئی سی ڈی اے کے ان افسروں پر بھی ہاتھ ڈال سکے گا جنہوں نے ان زمینوں پر غیر قانونی مکانات بنوائے ہیں اور ان لوگوں کو کرائے پر بٹھایا ہواہے؟"

"یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک نو ماہ کے بچے کو نہ صرف عدالت میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ اس پر اقدام قتل کا بھونڈا الزام بھی لگایا جاتا ہے اور اس پر فرد جرم بھی عائد کیا جاتا ہے لیکن ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والوں پر ہاتھ ڈالنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے،"، اس نے گفتگو کا رخ بدل دیا تھا.

"مان لیجیے کہ یہاں قانون صرف غریبوں اور لاچاروں کے لیے ہیں. یہاں انصاف کے نام پر صرف غریبوں کو ہی رگڑا جاتا ہے. امیروں سے سب ڈرتے ہیں یا پھر ان سے پیسے لے کر خاموشی اختیار کرتے ہیں."

"مان لیجیے کہ ہمارے ملک کے مقدس چوروں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کسی میں بھی نہیں ہے. انصاف کا رعب اور قانون کا دبدبہ صرف غریبوں اور کچی بستیوں کے مکینوں پر چلتا ہے. ان کا آپ کا قانون کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا جنہوں نے سینکڑوں ایکڑ زمینوں پر غیر قانونی پلازے اور ہوٹل اور فیکٹریاں تعمیر کی ہیں"

یہ کہہ کر وہ کیفے ٹیریا سے تیزی سے نکل گیا.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔