Tuesday, May 24, 2022

زندگی بے سبب اُداس نہیں



زندگی بے سبب اداس نہیں

کچھ تو ٹوٹا ہے، کچھ تو کھویا ہے

 

آسماں کے بھی کان ہیں شاید

آج وہ بھی تو کھل کے رویا ہے

 

کتنا پرکار ہے وہ ہرجائی

آنسوؤں میں لہو پرویا ہے

 

وہ جو اک بادشاہ سا تھا دل میں

جانے کس دیس جا کے کھویا ہے

 

مر کے بھی سرخسارلگتا ہے

خون دل میں کفن بھگویا ہے


مکمل تحریر >>

Tuesday, May 17, 2022

نسل پرستی کا عفریت

 

تصویر بشکریہ این پی آر 
گزشتہ دنوں نیویارک ریاست کے بالائی علاقے، بفیلو، میں ایک سفید فام نسل پرست فاشسٹ دہشتگرد نے ایک مارکیٹ کے اندر
10 سیاہ فام افراد کو فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ اپنی اس سفاکی کو اس دہشتگرد نے "ٹوئچ" نامی ایک آن لائن پلیٹ فارم پر "لائیو سٹریم" کیا۔

اس قتل عام کا ذمہ دار ایک 18 سالہ نوجوان ہے، جو سمجھتا ہے کہ سفید فام افراد سب سے اولی و اعلی ہیں اور دیگر تمام اقوام، بشمول سیاہ فام، ایشیائی، جنوبی ایشیائی، وسطی ایشیائی، یہودیوں، کو امریکہ سمیت "یورپی نژاد" ممالک میں رہنے کا حق نہیں ہے۔

اس نامراد مردود نے، جو پولیس کی تحویل میں ہے، نے اپنی سفاکی کا جواز فراہم کرنے کے لئے ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک "منشور" یا مینیفسٹو بھی جاری کیا ہے جس میں اپنی نفرت زدہ شیطانی سوچ کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

نسل پرستی ایک لعنت کی طرح اس ملک میں پھیلی ہوئی ہے، بالخصوص نسل پرست سفید فاموں میں، جو اس خوف کا شکار ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی و اقتداری قوت کم ہوتی جارہی ہے، اور اب انہیں اپنی "عالیشان ماضی" کی طرف واپس جانے کے لئے خون بہانے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح کی نسلی تفاخر پر مبنی سوچ رکھنے والے ہمارے ممالک میں بھی پھیلے ہوے ہیں، کسی نہ کسی شکل میں۔ ہندوستان میں دیکھیں جہاں اعلی ذات کے ہندو اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے تمام بہیمانہ طریقے استعمال کر رہے ہیں۔

 ہمارے ملک میں بھی نسل پرست، جو اپنی نسل یا سماجی گروہ کو دوسروں سے افضل مانتے ہیں، ہر گلی اور نکڑ میں پھیلے ہوے ہیں، اور اپنے خبث باطن کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔

 اس لعنتی سوچ کو ختم کرنے کے لئے ہمیں انسانی اقدار اور افکار اپنانے ہونگے اور لسانی، نسلی یا مذہبی تفاخر میں مبتلا افکار کی بیخ کرنی ہوگی۔ ورنہ نفرت کا یہ جوالا پرامن بقائے باہمی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے گا۔

مکمل تحریر >>

Saturday, February 05, 2022

میرا نام وخی ہے

 



میں آج اپنے بارے میں آپ کو کچھ بتانے جارہا ہوں۔ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ  میں صدیوں سے آپ کی برادری کا حصہ ہوں۔ آپ کے منفرد اور پیاری زبانوں کی طرح میں بھی  اپنے قوم کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ اور تمدن کا اجتماعی حافظہ اور مظہر ہوں۔

مجھے "وخی" اس لئے کہتے ہیں کہ میرا جنم وخان میں ہوا، جو ڈیڑھ سو  سال پہلے تک ایک چھوٹی سی ریاست تھی اور اب تاجکستان اور افغانستان کے درمیان منقسم ایک پہاڑی علاقہ ہے۔

مجھ میں دریائے آمو کی روانی اور چاشنی بھی ہے اور سطح مرتفع پامیر کے سبزازاروں میں کھلنے والے پھولوں کی مہک بھی۔ میں جدید اور زندہ بھی ہوں اور قدیم بھی کیونکہ میں اپنے وجود میں انتہائی قدیم الفاظ اور لہجے بھی پوشیدہ رکھتا ہوں۔

میں کب پیدا ہوا، یا کیسے پیدا ہو، اس کے بارے میں ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ راز میں فی الحال اپنے سینے میں مدفون رکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ میں ہزاروں سالوں سے وجود رکھتا ہوں۔

میرا حسب و نسب یہ ہے کہ میں زبانوں کے انڈویورپین قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے خاندان میں انڈوایرانین (ہند ایرانی) اور انڈو آرین (ہندی آریائی) زبانیں شامل ہیں۔ میرے نزدیک ترین کزنز میں جنوبی ساکا، تمشوقیز اور خُتانی ساکا جیسی ناپید زبانیں شامل ہیں۔  پشتو کے ساتھ بھی ذرا دور کی رشتہ داری ہے۔  

یوں تو مجھے ایرانی لسانی خاندان کی مشرقی شاخ میں شامل کیا جاتا ہے، لیکن میرے کچھ اوصاف مشرقی ایرانی زبانوں کی "پامیری" خانوادے میں شامل زبانوں سے مختلف ہیں۔ اسلئے بعض ماہرین مجھے فی الحال حتمی طور پر کسی مخصوص لسانی خانے میں ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ لیکن، بہرحال، یہ ایک علمی بحث ہے جو وقت اور تحقیق کے ساتھ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا۔

میرے جنم بھومی (جائے پیدائش) پر جب کابل اور قندہار کے حکمرانوں نے  برطانوی سامراج کی ایما پر حملہ کر کے قبضہ کیا یا تو کمزور حکمران اپنی ریاست چھوڑ کر تتر بتر ہوگئے۔ اس طرح میرے بہت سارے بولنے والے آپ کے مزید قریب آکر رہنے لگے۔ اب میرے بولنے والے افغانستان، تاجکستان، چینی ترکستان(سینکیانگ) اور روس  کے کونے کھدروں میں مقیم ہیں، اور صدیوں سے اپنی محنت اور قابلیت کے ذریعے ان بے آب و گیاہ بیابانوں کو آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ میرے بہت سارے بولنے والے سقوط وخان سے پہلے بھی آپ کے علاقوں میں آباد تھے، تو آپ یہ بغیر جھجھک کے کہہ سکتے ہیں کہ میں آپ کے علاقے کی تاریخ، تمدن اور تہذیب کا حصہ ہوں۔

بعض لوگ مجھے ایک "چھوٹی زبان" سمجھتے ہیں، کیونکہ میرے بولنے والوں کی تعداد کم ہے۔ ایسے لوگوں کو میری گہرائی اور گیرائی کا اندازہ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ میرے بارے میں مزید سیکھنے کی کوشش کریں گے، تاکہ ان کے مغالطے دور ہوں۔  بس اتنا کہوں کہ میں کسی بھی لحاظ سے کسی دوسری زبان سے کمتر نہیں ہوں۔

 ہاں، یہ الگ بات ہے کہ میرے بولنے والے اپنی کم تعداد کی وجہ سے سیاسی قوت نہیں رکھتے ہیں جس کے اثرات مجھ پر وقتاً فوقتاً مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ جب معاشرے میں "جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس" کی پالیسی رائج ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے۔

 ویسے آپس کی بات ہے کہ  اگر معاشرہ انصاف اور عدل کی بنیادوں پر منظم ہوتا  اور فیصلہ سازوں کی نیتیں صاف ہوتی تو میرے بولنے والوں کی کم عددی سے مجھ پر زیادہ فرق نہیں پڑتا، لیکن آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے  معاشروں میں انصاف اور عدل، برابری، کی صرف باتیں ہوتی ہیں۔

خیر۔  بعض لوگ مجھے حقیر سمجھ کر نظر انداز بھی کرتے ہیں، لیکن میں بھی بہت سخت جان ہوں۔ کسمپرسی کے باوجود  ہزاروں سالوں سے  اپنا وجود برقرار رکھا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ میرے بولنے والے اور زبانوں کی اہمیت سمجھنے والے دیگر ہزاروں افراد  مجھے مرنے نہیں دیں گے۔

میں گلگت بلتستان کے ان جوانوں سے، جو وخی زبان سے واقف نہیں ہیں، مخاطب ہوں کیونکہ وہ کل کے حکمران اور فیصلہ ساز بنیں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے بھی اپنے علاقے کی زبان تسلیم کریں گے اور میری ترقی اور بقا اور حق نمائندگی کے لئے آواز اٹھائیں گے۔

میرا نام وخی ہے۔ اور میرے بولنے والے پاکستان کے تین اضلاع، ہنزہ، غذر اور چترال میںآباد ہیں۔

آپ کا اپنا

خِھیک زِک - المعروف "وخی"

مکمل تحریر >>

Sunday, August 01, 2021

خیال سینیما کا داروغہ اور سن سیٹ پارک



شام کی آخری پہر ہے۔ دور بحراوقیانوس کے اوپر دھیرے دھیرے، غیر محسوس طریقے سے، سورج ڈوب رہا ہے۔ ہلکی ہلکی سی ہوا چل رہی ہے۔ لیکن اس ہوا میں وہ خنکی نہیں ہے جو "یازیوپک" کے سامنے پُل پر کھڑے ہو کر محسوس کی جاسکتی ہے۔ وہ گلیشیائی ہوا ہڈیوں میں اُترتی ہے تو فرحت کا احساس اُمڈ آتا ہے۔ بحراوقیانوس سے آنے والی اس ہوا کی خنکی میں ایک نرمی ہے جو من کے تار چھیڑ کر گزر جاتی ہے۔

 اسی لئے بہت سارے جوڑے ٹھنڈی گھاس پر، یا گھاس پر دریاں بچھا کر، بیٹھے غروب آفتاب کا منظر انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ میں بھی یہی پر ہوں، مگر میں اس پہر اکیلا ہوں۔ یوں تو کسی کو بھی نہیں جانتا، مگر بظاہر سب سے واقف ہوں۔

تین نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، دو گورے اور ایک مشرقی ایشیائی، میرے قریب ہی بیٹھے کھلکھلا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بئیر کی بوتلیں ہیں، اور یہ ایک دوسرے سے جام ٹکرا کر اس منظر کو اپنے حساب سے یادگار بنارہےہیں۔

تھوڑے فاصلے پر مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان ہے۔ چار عورتیں اور چند بچے اور بچیاں۔ ان کے لباس ارد گرد موجود افراد سے مختلف ہے، اور ہوا کے دوش پر ان کی آوازیں بھی وقتاً فوقتاً تیرتی ہوئی آتی ہیں۔ عربی میں ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے ہیں۔

ایک طرف دو گوری عورتیں بیٹھی ہیں۔ ان کے گرد دو شرارتی بچے ہنستے کھیلتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

کافی افراد "سن سیٹ پارک" میں موجود ہیں شام کے اس پہر۔ ہفتے کی شام ہے۔ اتوار کو چھٹی ہوگی۔ اس لئے خاندان، دوست اور احباب ایک دوسرے کے ساتھ وقت بتا رہے۔ لاطینی امریکی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ چینی نژاد افراد کا ایک بڑا سا گروہ موسیقی پر رقص نما ورزش میں مصروف ہے۔ آرتھوڈوکس یہودی افراد سے تعلق رکھنے والے، جنہیں ان کی منفرد لباس سے بآسانی پہچانا جاسکتا ہے، بھی بیٹھے نظر آرہے ہیں۔

بظاہر یہ سن سیٹ پارک دنیا کا ایک مائیکروکوزم ہے، یعنی ایک ایسا عالم صغیر  جس میں دنیا کی ساری ثقافتیں، صلاحتییں اور خاصیتیں موجود ہیں۔

دل چاہتا ہے کہ پارک میں گھوم کر مزید ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پہچانوں۔ ان سے بات نہ بھی ہو انہیں دیکھ کر خود کو یہ تسلی دلادوں کہ اس ثقافتی، لسانی، مذہبی، تہذیبی تغیر سے بھر پور دنیا میں بھی امن اور سکون کی ساعتیں ساتھ بیٹھ کر بتانا ممکن ہے۔

لیکن غروب آفتاب کی ساعت ہے۔ فلسفہ اور تحقیق، منطق، عقل کی دنیا سے تھوڑی دیر کے لئے دور جاکر بے خودی اور بے مقصدی کا احساس پانا چاہتا ہوں۔

طلب ہے فراغت کے کسی لمحے کی جو ہستی اور نیستی کےجھمیلوں سےدور لے جائے۔ بے خود کر دے۔ 

سورج غروب ہورہا ہے۔ نظریں بحراوقیانوس پر مرکوز ہیں۔ پارک میں موسیقی اور گفتگو کی صدائیں ہیں۔ ذہن کسی خیال پر مرکوز ہوتو من ایک خانقاہ یا زاویہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے، کہ عبادت ارتکاز فکر ہی کا تو نام ہے!

ایسے میں ایک آواز دل میں بھی اُبھرتی ہے۔ یہ آواز خودکلامی کی ہے۔ تنہائی اور خودکلامی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن یہ کلام بھی دنیائے خیال میں چل رہا ہے، اس لئے آوزیں روح میں گونجتی ہیں۔

یہ جو میرے ارد گرد بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، خوش و خرم، بظاہر مطمعن افراد موجود ہیں، ان پر مجھے رشک آتا ہے کیونکہ یہ زندگی کا مزا لے رہے ہیں، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ان کے گرد موجود افراد کونسی زبان بول رہے ہیں، کس مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، کس ملک سے آئے ہیں، کونسے کپڑے پہنے ہیں، یا نہیں پہنے ہیں، اور انہوں نے اس دنیا کو چھوڑ کر کہاں جانا ہے۔

ساڑھے تین سال ہوے ہیں مجھے اس ملک میں۔ کسی نے آج تک میرا مذہب نہیں پوچھا۔ کسی نے فرقہ نہیں پوچھا۔ اپارٹمنٹ بلڈنگ سے نکلتے ہوے مگر مجھے دیکھ کر "ہیلو"، "ہائی"، "ہاو از دی ویدر آوٹ سائڈ"، "ہاو آر یو ڈوئنگ ٹودے"، "ہیو اے نائس ڈے" ضرور کہتے ہیں، یہ جانے بغیرکہ میرا عقیدہ کیا ہے، یا میری ثقافت کیا ہے۔ انہیں میرے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کے لئے، مجھے برابر کا انسان قبول کرنے کے لئے، بظاہر میرے عقیدے، فرقے، مذہب یا ثقافت کے بارے میں معلوم ہونا ضروری نہیں ہے۔

لیکن ان بظاہر اچھے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہ سارے جہنم میں جائیں گے۔

"کنفرم جنتی" تو ہم ہیں۔ ا

"ہم"، کا کیا مطلب ہے، خیال سینیما کے داروغے نے اچانک وادی فکر میں سوال داغا۔

"ہم مطلب؟"میں نے تھوڑی دیر کے بعد جواب دیا۔ "ہم جو اپنے فرقے کے سوا کسی کو درست نہیں سمجھتے اور ہم جو دوسرے انسانوں کو برابر کا انسان نہیں سمجھتے"، میں نے کہا۔

"لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے کہ آپ کنفرم جنتی ہیں؟"، خیال سینیما کے داروغے نے پوچھا۔

"کیونکہ ہمارے فرقے کی کتابوں میں یہی لکھا ہے"، میں نے فوراً سے جواب دیا۔

خیال سینیما کا داروغہ خاموش ہوگیا۔

- آوارہ خیال

نوٹ: یازیوپک ایک گلیشیائی نالے کا نام ہے جو وادی گوجال میں حسینی اور غلکن گاوں کے درمیان شاہراہ قراقرم کے بہت نزدیک واقع ہے۔


مکمل تحریر >>