Friday, January 27, 2023

کیرچ میں ایک رات – آخری قسط

دیو ہیکل پہاڑوں کے دامن میں خزاں رسیدہ گھاس اور درختوں پر چھائے گھُپ اندھیرے، اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے دھیرے دھیرے اترتی چاند کی روشنی میں میں جو تاثیر ہے اس میں کیرچ کے اندر جلتے الاو کی حدت اور روشنی، لکڑی کے جلنے  اور برتنوں کے کھنکنے کی آوازیں، اور  فریاد صاحب کے وائلن کی جلترنگ شامل ہو  تو کُنڈا ہیل کی رات کا منظر کسی حد تک بیان ہوسکتا ہے۔  

کیرچ کے اندر چوہوں کی موجودگی کا سُن کر ہم سب چوکنے ہوگئے۔ پیٹ میں بھی چوہے دوڑ رہے تھے۔ لیکن کھانا پکنے میں بہت وقت لگ رہا تھا۔ 

استفسار پر معلوم ہوا کہ مُرغی کی بجائے خوش گائے (یاک) کا گوشت پکایا جارہا ہے۔ ایسی بلندی پر خوش گائے کا گوشت پکانے کی خواہش رکھنے والوں کو وطن کی ہواوں کا سلام  بہم پہنچاتے ہوے ہم بالآخر پیٹ پوجا کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے، لیکن اس انداز میں کہ گوشت کو ربڑ کی طرح کھینچ کھینچ کر کھانا پڑا، اور ہاتھوں کے ساتھ ساتھ چہروں پر بھی چکنائی پھیل گئی۔  کُنڈا ہیل کی پریاں اگر یہ منظر دیکھ پاتی تو ضرور قے کرتے ہوے ہم سے دور بھاگ جاتیں۔ 

مگر، بھوک لگی ہوتو ایسی باتوں پر کون توجہ دیتا ہے؟ یہ تو فراغت اور عیاشی کی باتیں ہیں۔ 

کیرچ کے اندر بیٹھے ہوے یہ خیال آیا کہ ہمارے بزرگ یہاں کس طرح رہتے ہونگے؟ ان کے کپڑے کیسے ہونگے؟ ان کے اطعام کس قسم کے تھے؟ ان کے اذہان پر کن خیالات کا پہرا رہتا ہوگا؟

ہم  ڈبل انڈروئیر، بڑے بڑے کوٹ، م


وٹی جرابیں اور جوتے پہنے ہوے لوگوں کو ان کی حالات کا اندازہ لگانے میں دقت پیش آرہی تھی۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ نہ ان کے پاس ہمارے جیسے کپڑے تھے، نہ جوتے، اور نہ ہی ہمیں میسر دیگر آلات و اسباب۔ ہم ایک رات کے لئے ان کی طرح رہنے کی اداکاری تو کرسکتے تھے، مگر ان کی طرح رہ نہیں سکتے تھے۔ 

سلیپنگ بیگزکے اندر بیٹھنے کے باوجود بھی ہم ٹھنڈک محسوس کر رہے تھے۔ درمیان میں جلتے الاو کی حدت صرف جسم کے سامنے والوں حصوں کو گرم رکھنے کیلئے کافی تھی۔ پیچھے سے گلیشیائی ہوائیں کیرچ کی ٹوٹی پھوٹی  چوبی دیواروں کے درمیان موجود خلاوں سے گزرنے کے بعد تیر کی طرح ہڈیاں میں اُتر رہی تھیں۔ 

ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے خالص قدرتی مشروبات  (بشمول گرین ٹی) سے استفادہ کیا۔ اور کیا خوب کیا۔ 


چاند کی کرنیں پہاڑوں کی دیواروں سے دھیرے دھیرے نیچے اتر رہی تھیں۔ پوری وادی میں ایک ایسا سناٹا تھا کہ وحشت کا گمان ہوتا تھا۔

اس سکوتِ شب کے سحر کو توڑنے کے لئے علی سرور نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور اس میں فریاد نے اپنے وائلن کی  آوازیں شامل کردیں۔ بس پھر  کیا تھا۔۔۔۔۔۔ 

طاوس و رباب اول۔۔۔۔ طاوس و رُباب آخر ۔۔۔۔۔۔کا فلسفہ شامل حال ہو تو بے خود اور بے حال ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹیں جھٹ سے دور ہوجاتی ہیں۔

اس رات کا سحر تھا کہ جس نے بھی گایا، جو بھی گایا، روح تک اُتر گیا اور اس کی تاثیر آج بھی ہفتوں بعد  زندہ  ہے۔ 

دن بھر کی تھکن کے باوجود بھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔ چاندنی کیرچ کے چاروں اطراف سے چھن چھن کر اندر آنے لگی۔  

"جانے کب تک تیری تصویر نگاہوں میں رہی

ہوگئی رات تیرے عکس کو تکتے تکے 

میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے میں 

تیری تصویر پہ لب رکھ دئیے آہستہ سے " – پروین شاکر 

صبح ہائیکنگ پر وادی میں مزید اندر کی طرف جانے کا منصوبہ تھا۔ خواہش اور اُمید تھی کہ گلیشیر کے نزدیک پہنچ جائیں گے۔ چائے اور پٹوک (بروشسکی میں پی ٹی) کا روایتی ناشتہ کرنے کرنے کے بعد ہم نے زیادہ تر سامان کیرچ کے اندر رکھا اور خود ہائکنگ کے لئے روانہ ہوگئے۔ راستے میں جابجا خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوے۔ تصویریں بنائیں اور چلتے رہے۔ ایک گلیشائی ندی، جس میں پانی بہت ہی کم تھا، پار کرنے کے بعد ہم دھیرے دھیرے ایک بار پھر ایک ڈھلوان پر چڑھنے لگے۔ 

ہماری شدید خواہش تھی کہ راستے میں ہمیں کوئی "جوندور" نظر آئے گا، یعنی کسی برفانی چیتے کا یا آئی بیکس  کا دیدار ہوگا۔ آثار بھی تھے۔ جا بجا ہمیں قدموں کے نشانات نظر آئے، لیکن پرندوں کے چند غولوں  کے علاوہ کسی ذی روح کا دیدار نصیب نہ ہوا۔ 

پہاڑی پر چڑھنا نسبتاً مشکل ثابت ہوا کیونکہ زمین برف سے اٹی ہوئی تھی۔ سورج کی تمازت سے برف پگھل جائے تو زمین  نرم اور گیلی ہوجاتی ہے جس پر قدم رکھنے سے پھسل کر گرنے کا خدشہ تھا۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے گئے۔ چڑھائی کے باعث پھیپھڑوں پر ایک بار پھر مصیبت آئی۔ سانسیں پھول گئیں، لیکن ہم نے رُکنے سے انکار کیا۔ 

پہاڑی کے اوپر ایک سنگِ میل سا نظر آرہا تھا۔ بعض دوستوں نے کہا کہ سنگِ میل نہیں بلکہ درخت ہے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ اس سنگِ میل (وخی میں انہیں ثمن کہتے ہیں)  تک ضرور پہنچیں گے۔ 

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

 میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا (منیر نیازی) 

اس ثمن تک پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ گلیشر کے نزدیک پہنچنے کا خواب پورا نہیں ہوگا،کیونکہ آگے اچھا خاصا فاصلہ تھا۔ لیکن یہاں سے واپس جانے کا بھی من نہیں کر رہا تھا کیونکہ ابھی دن کے بارہ بھی نہیں بجے تھے، حالانکہ ہم نے کم از کم 4 گھنٹے کی ہائیکنگ کی تھی۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد تھکاوٹ کا اثر بھی کم ہوگیا تھا۔ اس لئے ہم نے مزید اوپر جانے کا فیصلہ کیا۔ فریاد صاحب نے مزید آگے جانے کی بجائے اس مقام پر بیٹھ کر نظارہ قدرت میں مصروف رہنے  کا ارادہ کیا۔

علی سرور، شاہد سلطان اور راقم برف پر گرتے پھسلتے گلیشیر کے ایک انتہائی زیریں حصے کے نزدیک پہنچ ہی گئے۔  چند تصویریں نکالنے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ہمارا خیال تھا کہ واپسی آسان ہوگی۔ لیکن برف اور پھسلن کی وجہ سے گرتے پڑتے نیچے پہنچ گئے۔ 

شاہد سلطان نے تیزی سے آگے جانے اور ہم سست قدموں کی کیرچ آمد سے قبل لنچ تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور جلد ہی چلتے چلتے ہماری نظروں کی حدود سے نکل گیا۔ علی سرور اور راقم بھی دھیرے دھیرے آگے بڑھتے گئے۔ لیکن فریاد صاحب پیچھے رہ گئے۔ انہیں پتھروں پر تحقیق کا شوق ہے، اس لئے ایک چھوٹی سی ہتھوڑی اور ایک عدسہ ہاتھ میں لئے چل رہا تھا، اور اپنیموبائل سے ولاگ بھی بنا رہا تھا۔ 

کیرچ تک پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد فریاد بھی نمودار ہوگئے۔ لنچ کھانے کیبعد ہم نے سامان سمیٹا۔ کیرچ پر ایک نظر ڈالی۔ بزرگوں کو یاد کیا۔ اور واپسی کی راہ لی۔ 

ویر خُن سے ہوتے ہوے ہم یرزریچ کی سمت جاتی ہوئی سڑک پر پہنچ گئے تو شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ذیشان کار سمیت پہنچ گیا۔ آدھ گھنٹے کے بعد فریاد صاحب بھی بخیر و عافیت بالآخر پہنچ گیا۔ 

اس سفر کے اختتام پر ٹانگیں تھکی ہوئی تھیں مگر روح کی تازگی لوٹ آئی تھی۔ دُعا ہے کہ یہ تازگی برقرار رہے۔ 

امید اور ارادہ ہے کہ اگلی دفعہ پاکستان واپسی ہوئی تو وادی شمشال میں واقع پامیر کی جھیلوں اور سبزہ زادوں تک جائیں گے۔

نوٹ: یہ سفرنامہ ضلع ہنزہ (گلگت بلتستان) کے بالائی علاقے وادی گوجال میں واقع ایک چراگاہ سے متعلق ہے

مکمل تحریر >>

کیرچ میں ایک رات – تیسری قسط

ویر خُن سے روانگی کے بعد نسبتاً آسان راستہ ملا۔ گھنے، قدیم، درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوے  ہم ارد گرد بکھرے ہزار رنگوں کے پتھروں کو دیکھ کر حیران ہو پریشان ہوتے رہے۔ کُنڈا ہیل کی وادی کی چوڑائی اتنی زیادہ نہیں ہے، لیکن لمبائی اچھی خاصی ہے۔ پورے راستے میں جا بجا  جنگلات اور درخت موجود تو ہیں مگر آثار بتارہے ہیں کہ پہلے کی نسبت بہت کم درخت رہ گئے ہیں۔ درختوں کی کمی کی مختلف وجوہا ت ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو قدرتی آفات ہیں۔ پوری وادی میں جابجا سیلابی ریلوں کی گزرگاہیں ہیں۔ زمینی تودے گرنے کے باعث نہ صرف بہت سارے جنگلات دب گئے ہیں بلکہ کُنڈا ہیل کو سیراب کرنے والی نہر بھی کٹ چکی ہے۔ سیلابی ریلے اپنے ساتھ بہت سارے چھوٹے بڑے پتھر لے کر آتے ہیں۔ ان میں بہت قیمتی پتھر بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر پتھر بس تباہی کا سامان بن جاتے ہیں۔ 

قدرتی آفات سے جو کچھ بچ گیا، اُسے انسانی آفات نے تباہ کردیا ہے۔ ماضی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی ہوئی ہے اس علاقے میں۔ بتایا جاتا ہے کہ انگریز سامراج نے جب ہنزہ و نگر کو مقامی و علاقائی  غداروں کی کمک سے زیر کرلیا تو  شمالی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے وادی مسگر میں قلندرچی کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کیا۔ اس قلعے کی تعمیر کے لئے ساری لکڑی کُنڈا ہیل سے براستہ چپورسن لے جایا گیا۔ 

اس کُنڈا ہیل سے ہی درخت کاٹ کر لکڑی بہت سارے گھروں کی تعمیر میں خرچ کیا گیا۔ قدرتی وسائل سے فائدہ اُٹھانا مقامی افراد کا حق ہے لیکن وسائل کی دیرپا بقا کے لئے تدبیر کی بھی اشد ضرورت ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں بجلی اور گیس کی سہولت میسر نہیں ہے، جس کے باعث بہت دہائیوں تک درخت کاٹ کر جلانے کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ آجکل پابندیاں عائد ہیں۔ امید ہے کہ اب انسانی آفتوں پر قابو پایا جائے گا۔

انہی موضوعات پرخامہ فرسائی کرتے ہوے فریاد، سرور، شائد اور میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے۔ فریاد حسبِ معمول اپنی جیب سے عدسہ نکال کر پتھروں کو بغور دیکھ رہے تھے۔ اور وہ اپنی یوٹیوب چینل کے لئے غالباً ولاگز بھی بنارہے تھے۔  اس لئے ان کی رفتار ہمارے نسبت دھیمی تھی۔


 

ہم بھی تصویریں نکالتے ہوے آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ سوست سے منرل واٹر کی چار بوتلوں میں پانی لینا، ہر شخص کے لئے ایک بوتل، اچھا فیصلہ تھا۔ زیادہ بوتل  خریدنے کی صورت میں وزن کا بڑھنا لازمی امر تھا۔ 

بہر حال، دھیرے دھیرے چلتے ہوے ہم وادی میں آگے بڑھ رہے تھے۔ سیلابی ریلوں اور برفانی تودوں کے گرنے کے مقامات سے چلنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ چھوٹے بڑے پتھر ہر قدم پر موجود ہیں۔ پاوں کے تلوے  دُکھنے لگتے ہیں۔

سورج کی کرنیں بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتے چلتے پہاڑوں کی چوٹیوں کی جانب گامزن تھیں۔ ہمارا ہدف تھا اندھیرے سے پہلے کُنڈا ہیل میں واقع کیرچ تک پہنچنا۔ اندھیرا چھا جانے کی صورت میں سرور کے پاس موجود چھوٹے سے ٹارچ کا سہارا تھا۔ لیکن ہم اس سہارے پر تکیہ کر کے ٹانگیں تڑوانے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اس لئے رفتار بڑھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ 

سورج کی روشنی کم ہورہی تھی، اور اسی رفتار سے سردی بھی بڑھ رہی تھی۔ دھیرے دھیرے ہم کُنڈا ہیل گلیشیر کے نزدیک بھی پہنچ رہے تھے۔ یخ بستہ ہوائیں گلیشیرز سے نکلتی ہیں اور ہڈیوںمیں پیوست ہوجاتی ہیں۔ ہم نے رات کُنڈا ہیل میں ہی گزارنی تھی۔

کیرچ تک پہنچتے پہنچے آخری چڑھائی ٹانگوں پر بہت بھاری ثابت ہوئی۔ تاہم خزان رسیدہ جنگل کے درمیان سے گزرتے ہوے آنکھوں کو فرحت بخشنے والے مناظر بھی بہت سارے تھے۔ منزل قریب ہو تو آخری مرحلے دشوار ہونے کے باوجود بھی آسان ہوجاتے ہیں۔ 

شکیل بدایونی نے کہا تھا کہ

مجھے آگیا یقین سا کہ یہی ہے میری منزل 

سرِ راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پُکارا 

کہا جاتا ہے کہ ان دلکش جنگلات اور قدیم  درختوں، جن کے پتوں سے خوشبوویں نکلتی ہیں، کے درمیان پریاں رہتی ہیں۔ ہماری بھی خواہش تھی کہ کوئی پری سامنے آکر ہمارا نام پُکارے۔ مگر، شام کے اس پہر اس دشتِ تنہائی میں ہمارا نام پُکارنے والے پری یا پری زاد کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ 

پریوں سے آنکھیں چار کرنے کی خواہشِ نامراد کو دل میں دفن کرکے ہم چڑھائی چڑھتے رہے۔ چند منٹوں کے بعد ایک چھوٹے سے میدانی علاقے تک پہنچ گئے، جہاں لکڑی سے تعمیر شدہ خیمہ نُما پناہ گاہیں تھیں۔ انہی خیمہ نُما پناہگاہوں کو وخی میں کیرچ کہا جاتا ہے۔ اور انہیں میں سے ایک کے اندر ہم رات گزارنی تھی۔ 

سامان پھینکنے اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد ذمہ داریوں کی تقسیم کی گئی۔ جلانے اور کھانا پکانے کیلئے سوکھی ٹہنیاں جمع کرنے کی ذمہ داری۔ کھانا پکانے کی ذمہ داری۔ برتن دھونے کی ذمہ داری۔ ایک عمودی ڈھلوان پر سے اترنے کے بعد اُس قدرتی چشمے سے بوتلوں اور دیگیچوں میں پانی لانے کی ذمہ داری، جس کے گرد زمین نرم و گداز ہے اور جس میں پاوں دھنسے جاتے ہیں۔ 

جون ایلیا نے کیا خوب کہا تھا کہ 

یہ خراباتیانِ خرد باختہ 

صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے۔ 

ہمیں تو کام پر جانے کے لئے صبح تک انتظار کی مہلت بھی نہیں ملی۔

اس جہانِ لطافت میں بھی جسمِ کثیف کی ضروریات سے نگاہیں نہیں پھیری جاسکتی ہیں۔

مکمل تحریر >>

Friday, December 02, 2022

کیرچ میں ایک رات - دوسری قسط

 


سوست سے شمال مغرب کی جانب وادی چپورسن واقع ہے، جس کی سرحدیں آگے جا کر وخان (افغانستان) سے ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں چپورسن وادی میں بہت آگے نہیں جانا تھا۔ دریا کنارے پُر خطر سڑک پر جاتے ہوے کئی بار خوف سے سانسیں رُک گئیں۔ اوپر پہاڑ، نیچے دریا اور سڑک کی حالت ایسی کہ ہر گام پر موت منہ کھولے انتطار میں بیٹھی ہے۔

بائیں ہاتھ پر تراخان نامی چراگاہ واقع ہے۔ چھوٹی سے جگہ ہے، دریائے چپورسن کے اُس پار۔ تھوڑی دیر آگے اک چھوٹے سے پُل سے گزرنے کے بعد ہمارا رُخ بائیں جانب ہوا، کیونکہ ہمیں آستانہ پنجہ شاہ کے قریب سے گزرتے ہوے اوپر جانا تھا۔ پنجہ شاہ کے بارے میں ایک بلاگ پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔ تھوڑی دیر آستان کے ارد گرد تصویر کشی و طواف میں گزارنے کے بعد ہم آگے روانہ ہوگئے۔

یرزریچ نامی گاوں سے کچھ فاصلے پر گاڑی رُک گئی۔ اب ہمیں چار پہیوں سے دو ٹانگوں پر منتقل ہونا تھا۔ جہاں گاڑی رُکی اس کے نزدیک ہی کچھ قبریں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں قرغیز رہائش پزیر تھے، یا اس علاقے میں بطور خانہ بدوش آتے جاتے رہتے تھے ۔ ، قبریں ان کی ہیں۔ واللہ اعلم! بظاہر خزانوں کے متلاشیوں نے بعض قبروں کو کھودنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان قبروں میں مدفون افراد کی باقیات ہمارے علاقے کی تاریخ کے امین ہیں ۔ ڈی این اے ٹیسٹنگ سے ان کے بارے میں بہت ساری معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ چند روز قبل ایک موقر میگزین میں پڑھا کہ آٹھ ہزار سال پرانی ہڈی سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر اُس قدیم خاتون کی ہو بہو شکل بھی آرٹفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ یہ ہڈیاں ہمارے ماضی کی امین ہیں۔ انہیں بیکار سمجھنے کی غلطی سے گریز کرنی چاہیے۔ میر تقی میر نے بھی تو ہمیں بہت پہلے بتایا تھا کہ

کل پاوں ایک کاسہ سر پر جو آگیا

یکسر و استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُرغرور تھا

اس مقام سے آگے ہم نے ذیشان کا شکریہ ادا کیا اور انہوں نے واپسی کی راہ لی۔ ہم سامان پیٹھ پر لاد کر ایک عمودی چڑھائی چڑھنے لگے۔ کچھ ہی قدموں میں سانسیں پھول گئیں تو خیال سینیما کے داروغہ نے کانوں میں سرگوشی کی، "کیا سوچ کر کوہ نوردی کرنے آئے تھے؟ "

مجھے اندازہ تھا کہ نیویارک میں پانچ سال گزارنے کے بعد پہاڑوں پر چڑھنا آسان بلکل بھی نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ جس پر ہم چڑھ رہے تھے اُسے پہاڑ کہنا پہاڑوں کی توہین تصور کی جائے گی!

کورونا میں مبتلا ہونے اور ایک ماہ بستر پر پڑے رہنے کے بعد پھیپھڑوں کی صحت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوا تھا۔ خدشہ پیدا ہوا کہ شائد پھیپھڑے ساتھ نہیں دیں گے ! ٹانگیں بھی احتجاجاً رُک رُک کر چل رہی تھیں۔ لیکن میں نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ کچھ بھی ہو کُنڈ ا ہیل پہنچ ہی جاوں گا!

ارد گرد نظر دوڑایا تو ہمسفر کڑیل جوانوں کی حالت بھی مجھ سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ سب کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ اُن کی حالت دیکھی تو حوصلہ بڑھا! آہستہ آہستہ ، یعنی ہر تین قدم کے بعد سانس لینے کے لئے رُکنے کے بعد، اوپر چڑھتے رہے۔ تصویریں لیں۔ بیٹھ کر عجیب و غریب ہیت و رنگ والے پہاڑوں پر غور کیا۔ حیران ہوے۔ وحشت بھی ہوئی۔ اتنے چھوٹے سے تو ہیں ہم انسان۔ ہماری کیا حیثیت اور مجال ؟ یہ پہاڑ اور پتھر اربوں سالوں سے اسی علاقے میں ہیں۔ ہم جیسے آتے جاتے رہتے ہیں۔ مشت بھر تو زندگی ہے ہماری۔ عاجز ی سیکھنا چاہتے ہو تو قدرت کو دیکھو! حیرت و وحشت سے عاجزی آ ہی جائے گی!

دائیں طرف پہاڑی پر ایک چوکی سی بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چوکیاں قرغیز حملہ آوروں پر نظر رکھنے کے لئے دفاعی اعتبار سے بنائے گئے تھے۔ ہم نے دور سے نظارے پر اکتفا کر لیا کیونکہ دن کے ایک بجے تھے اور ہمیں اندھیرا چھانے سے پہلے کُنڈا ہیل پہنچنا تھا۔



جو لوگ پہاڑوں پر جاتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ جڑی بوٹیوں سے ایسی دلکش خوشبوویں آتی ہیں کہ روح شاداب ہوجاتا ہے۔ ہم بھی رنگوں اور خوشبووں کی اس دلکش مگر بنجر وادی سے پھولی سانوں اور دُکھتی ٹانگوں کے ساتھ چلتے چلتے پہاڑی کے اوپر پہنچ ہی گئے۔

یاروں نے خوشخبری سُنائی کہ "منزل مقصود آئی ہے قریب ۔۔۔۔ ساتھیوں آگے چلو بس چند گام"۔ یہاں منزل سے مراد ویر خُن نامی جگہ ہے۔ ویر خُن وخی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "اکیلا گھر، یا خانہ تنہا"۔ یہاں رُک کر ہمیں سوست بازار سے خریدے ہوے پلاو پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔

ویر خُن میں کچھ چرواہے موجود ہیں ۔بھیڑ بکریوں کی بہتات ہے۔ بہت سارے یاک (خوش گائے)بھی نظر آئے۔ لیکن کسی انسان کا نطارہ نہیں ہوا۔ وسیع و عریض وادی ہے۔ کسی زمانے میں، جب پانی یہاں تک پہنچتا تھا، کاشتکاری بھی ہوتی تھی۔ کھیتیاں بنی ہوئی ہیں، لیکن اب کھیتیوں کا انحصار برف اور بارشوں پر ہے ، اس لئے گھاس ہی اُگ پاتی ہے۔

ایک نسبتاً اونچے ٹیلے پر بیٹھ کر پلاو پر ہاتھ صاف کیا ۔ نظاروں کا لطف اُٹھایا۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔

- جاری ہے

 

 

مکمل تحریر >>

کیرچ میں ایک رات - پہلی قسط

 


ہانپتے ہانپتے ہم یرزریچ کے مقام پر کچی سڑک تک  بالآخر پہنچ ہی  گئے۔ شام کی لالی پہاڑوں کے اس پار چلی گئی تھی اور اندھیروں نے وادی میں ڈیرا ڈال دیا تھا۔ تھوڑی دیر سڑک کنارے سستانے کے بعد مُڑ کر ڈھلوان کی طرف دیکھا تو فریاد صاحب بدستور غائب تھے۔ ذیشان مقررہ وقت کے قریب کار لے کر پہنچ گیا۔ کار کو دیکھنے کے بعد اتنی تسلی تو ہو گئی کہ رات یرزریچ میں نہیں گزرے گی۔ ذہنی طور پر ہم رات گزارنے کے لئے بھی تیار تھے، کیونکہ سوست تک پیدل پہنچنے میں گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

 اُترائی پر پانچ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد پاوں اُٹھائے نہیں اُٹھتے تھے۔ شاہد سلطان ہم سے بہت پہلے ہی چیتے کی رفتار سے چلتے ہوے پنہچ چکا تھا۔

اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ پسینے سے شرابور جسم اب سردی محسوس کرنے لگے تھے۔  فریاد صاحب ، پیٹھ پر وائلن لادے ہوے، بدستور غائب تھے ۔ میری پریشانی کو بھانپتے ہوے شاہد اور فریاد نے تسلی دی کہ پہاڑوں کی یاترا کے دوران فریاد صاحب تسلی سے چلنے اور ارد گرد کے مناظر اور مظاہر پر غور کرنے کے عادی ہیں۔ اس لئے جلد یا بدیر پہنچ ہی جائیں گے۔ انتظار کرنے کے سوا چارا نہ تھا۔

اکتوبر 2022 کو شروع ہوے دس روز گزر چکے تھے۔ ہم کُنڈا ہیل نامی چراگاہ میں ایک قدیم خیمہ نُما چوبی جھونپڑی میں ایک رات گُزارنے کے بعد گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

کُنڈا ہیل کیا چیز ہے بھلا؟

کُنڈا وخی میں بڑی لکڑی  (درخت) کو کہتے ہیں اور ہیل کا مطلب ہے چراگاہ۔ یعنی ایک ایسا چراگاہ جس میں بڑے درخت ہیں، جن میں سے بہت سارے سوکھ چکے تھے، اور بہت سارے کٹ کر سینکڑوں گھروں کی تعمیر میں استعمال ہوے ہیں۔ یہ چراگاہ گلمت کے باشندوں کی ملکیت ہے ۔ سوست نامی سرحدی قصبے سے تقریباً 50 کلومیٹر اندر چپورسن کی طرف یرزریچ نامی گاوں کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ میں نے اس چراگاہ سے متعلق بہت کچھ اپنی نانی اور نانا سے سُنا تھا۔ نانی نے زندگی کے کئی سال یہاں بطور چرواہا گزارے تھے اور ان ایام کی باتیں کرتے ہوے ان کی آنکھوں میں چمک اور لہجے میں خوش جھلکنے لگتی تھی۔ کُنڈا ہیل جانا اور اس چراگاہ کو دیکھنے کی آرزو بڑے عرصے سے تھی۔ بیرون ملک پانچ سال گزارنے کے بعدسیاحتی حس مزید بیدار ہوئی۔ امید تھا کہ گاوں جانے کے بعد کچھ آوارہ گردی ضرور ہوگی۔ ہلکا سا خدشہ یہ بھی تھا کہ گاوں میں سارے دوست کاروبارِ زندگی میں مصروف ہوں گے ۔ اور اگر دوستوں کا ساتھ نہ ہوتو آوارہ گردی کو خواری میں بدلتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔

خوش قسمتی سے گاوں میں دوستوں جیسے بھائی اور بھائیوں جیسے دوست موجود تھے۔ ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد علی سرور ، فریاد اللہ ، شاہد سلطان  کے ساتھ مل کر پہلی سیاحتی پروگرام کا  فیصلہ ہوا۔ سلیپنگ بیگ، اشیائے خوردونوش،( یہاں نوش پر زیادہ غور مت کیجئے) اور تین تین شلواروں/پاجاموں /پتلونوں کے ساتھ ساتھ وائلن اور تُمبک کا بھی اہتمام کیا گیا۔  فیصلہ ہوا کہ ذیشان ہمیں یرزریچ تک کار میں لے جائے گا، جہاں سے ہم ٹریکنگ/ہائکنگ کرتے ہوے چار یا پانچ گھنٹوں میں جائے مقصود تک پہنچ جائیں گے۔ ایک رات گزارنے کے بعد اگلی شام کو ذیشان پھر ہمیں کار میں اُٹھانے کے لئے آستانہ پنجہ شاہ کا  طاق طواف کرتے ہوے واپس آئے گا۔

9 بجے روانگی کا منصوبہ تھا۔ 12 بجے کو اصل روانگی ہوئی۔ سوست سے لنچ پیک لے کر ہم چپورسن کی طرف روانہ ہوگئے ۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ لنچ "ویر خون"، وخی میں تنہا گھر، نامی جگہے پر کیا جائے گا۔

روداد کو مزید آگے لیجانے سے پہلے ذرا ہمسفر دوستوں کا مختصر تعارف لکھ دیتا ہوں۔

فریاد اللہ بیگ صاحب گلمت مین "سٹون ایج کیفے" چلاتے ہیں۔ شاعرانہ مزاج کے انسان ہیں۔ وائلن ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں۔ پہاڑوں میں گھومنا اور پتھروں پر غور و فکر کرنا ان کے مشاغل میں شامل ہیں۔

علی سرور صاحب ایک عالمی ترقیاتی ادارے میں بطور سپیشلسٹ کام کرتے ہیں۔ افریقہ اور دیگر ممالک میں کام کرنے کے بعد آج کل گھر سے ہی کام میں مصروف ہیں۔ شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں۔ گلوکاری کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ صیح معنوں میں سیلف میڈ شخصیت ہے۔

شاہد سلطان صاحب کراچی میں ایک لا فرم کے ساتھ کافی سالوں تک کام کرنے کے بعد اب کاروبار میں مصروف ہیں۔ پہاڑوں کو خوب جانتے ہیں اور اس سفر میٰں ہمارے گائیڈ تھے۔

راقم الحروف کا تعارف بس اتنا ہے کہ آوارہ خیالی اور آوارہ گردی کے درمیان ڈولتے رہنے کی خواہشِ نامراد کا مالک ہے۔

جاری ہے

مکمل تحریر >>