بدقسمتی سے گلگت بلتستان فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات کی وجہ سے کافی بدنام رہا ہے۔ ماضی میں مختلف ایسے واقعات ہوے ہیں جن میں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے، بلکہ زندگی کی تمام سرگرمیاں متاثر رہی ہیں۔ اسی لئے عاشورہ محرم کے دوران سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے۔ صرف پانچ کلومیٹر طویل گلگت شہر میں 285 کیمرے لگائے گئے ہیں، تاکہ شہر کی ہر سڑک اور ہر گلی کوچے پر نظر رکھی جائے اور کسی بھی ناخوشگوار حادثے کی صورت میں بروقت اور بھرپور جواب دیا جاسکے۔ رینجرز، گلگت بلتستان سکاوٹس، پولیس اور ایف سی کے ہزاروں جوان شہر بھر میں تعینات تھے تاکہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھا جا سکے۔ اور ان کوششوں میں کامیابی بھی ہوئی، جو قابلِ ستائش ہے۔
امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے میں سب سے اہم کردار عوام کا ہوتا ہے۔ اور عوام نے بھی اپنے اس کردار کو بخوبی نبھایا ہے۔ بلکہ صرف پرامن رہنے سے بڑھ کر، مختلف عوامی فلاحی اداروں نے علاقے بھر میں اپنے تئیں کوشش کی ہے کہ عزاداروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔ پورے گلگت بلتستان میں درجنوں اداروں نے اس عمل میں حصہ لیا۔
میں گلگت شہر میں کام کرنے والے چند اداروں کا نام ضرور لوں گا جنہوں نے عزاداروں کی خدمت کرنے کی کوشش کی۔ ان اداروں کا تعلق اثناعشری شعیہ فرقے سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ان کے علاوہ بھی بہت سارے اداروں نے یقیناً کام کیا ہوگا۔ اور ان کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔
جماعت احمدیہ کی مثال لیجئے، جنہوں نے امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا، تاکہ ماتم داری کے دوران زخمی ہونے والوں کی عیادت کی جاسکے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت فاونڈیشن نے بھی میڈیکل کیمپ لگا کر عزاداروں کی تیمارداری کی۔ ادھر اسماعیلی بوائز سکاوٹس نے نہ صرف عاشورہ کے جلوس کے راستے کے ایک چھوٹے سے حصے کی صفائی کی، بلکہ سید الشہدا امام حسین کے مبارک نام کی سبیل لگا کر عزاداروں کی خدمت کی کوشش بھی کی۔
آپ کہیں گے یہ کونسی بڑی بات ہے۔ کونسا تیر مار لیا ان تین اداروں اور جماعتوں نے؟ کونسا احسان کرلیا؟
آپ کی بات درست ہے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ ہمارا علاقہ کس کربناک جوار بھاٹا سے گزر کر پرسکوت پانیوں میں آیا ہے! اللہ کرے کہ ان پرسکوت پانیوں میں ہمارے خوبصورت و دلکش گلگت بلتستان کا قیام ہمیشہ رہے۔
تو کیا ان تین واقعات یا سرگرمیوں سے حالات ٹھیک ہوگئے؟
میرا نہیں خیال۔ میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں۔
ابھی نفرت، بداعتمادی اور بے مقصد دشمنی کی زنگ اترنے میں وقت لگے گا۔ شرط یہ ہے کہ یکجہتی اور محبتیں تقسیم کرنے کا یہ عمل اسی طرح جاری رہے، اور بڑھتا رہے۔ تیزی سے آگے بڑھنے اور تہذیب یافتہ ہونے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے عقائد، افکار، تہواروں اور رسومات کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کو نہ صرف برداشت کریں، بلکہ پرامن بقائے باہمی کے سہنرے اصول پر کاربند ہوتے ہوے ایک دوسرے کو تمام فکری اور فروعی اختلافات کے ساتھ قبول کریں، اور مل جل کر ایک پرامن،انصاف پر مبنی اور خوشحال معاشرے کے قیام کے لئے کوششیں کریں۔
اسی میں ہماری اجتماعی، گروہی اور انفرادی ترقی کا راز مضمر ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔