Friday, December 02, 2022

کیرچ میں ایک رات - پہلی قسط

 


ہانپتے ہانپتے ہم یرزریچ کے مقام پر کچی سڑک تک  بالآخر پہنچ ہی  گئے۔ شام کی لالی پہاڑوں کے اس پار چلی گئی تھی اور اندھیروں نے وادی میں ڈیرا ڈال دیا تھا۔ تھوڑی دیر سڑک کنارے سستانے کے بعد مُڑ کر ڈھلوان کی طرف دیکھا تو فریاد صاحب بدستور غائب تھے۔ ذیشان مقررہ وقت کے قریب کار لے کر پہنچ گیا۔ کار کو دیکھنے کے بعد اتنی تسلی تو ہو گئی کہ رات یرزریچ میں نہیں گزرے گی۔ ذہنی طور پر ہم رات گزارنے کے لئے بھی تیار تھے، کیونکہ سوست تک پیدل پہنچنے میں گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

 اُترائی پر پانچ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد پاوں اُٹھائے نہیں اُٹھتے تھے۔ شاہد سلطان ہم سے بہت پہلے ہی چیتے کی رفتار سے چلتے ہوے پنہچ چکا تھا۔

اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ پسینے سے شرابور جسم اب سردی محسوس کرنے لگے تھے۔  فریاد صاحب ، پیٹھ پر وائلن لادے ہوے، بدستور غائب تھے ۔ میری پریشانی کو بھانپتے ہوے شاہد اور فریاد نے تسلی دی کہ پہاڑوں کی یاترا کے دوران فریاد صاحب تسلی سے چلنے اور ارد گرد کے مناظر اور مظاہر پر غور کرنے کے عادی ہیں۔ اس لئے جلد یا بدیر پہنچ ہی جائیں گے۔ انتظار کرنے کے سوا چارا نہ تھا۔

اکتوبر 2022 کو شروع ہوے دس روز گزر چکے تھے۔ ہم کُنڈا ہیل نامی چراگاہ میں ایک قدیم خیمہ نُما چوبی جھونپڑی میں ایک رات گُزارنے کے بعد گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

کُنڈا ہیل کیا چیز ہے بھلا؟

کُنڈا وخی میں بڑی لکڑی  (درخت) کو کہتے ہیں اور ہیل کا مطلب ہے چراگاہ۔ یعنی ایک ایسا چراگاہ جس میں بڑے درخت ہیں، جن میں سے بہت سارے سوکھ چکے تھے، اور بہت سارے کٹ کر سینکڑوں گھروں کی تعمیر میں استعمال ہوے ہیں۔ یہ چراگاہ گلمت کے باشندوں کی ملکیت ہے ۔ سوست نامی سرحدی قصبے سے تقریباً 50 کلومیٹر اندر چپورسن کی طرف یرزریچ نامی گاوں کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ میں نے اس چراگاہ سے متعلق بہت کچھ اپنی نانی اور نانا سے سُنا تھا۔ نانی نے زندگی کے کئی سال یہاں بطور چرواہا گزارے تھے اور ان ایام کی باتیں کرتے ہوے ان کی آنکھوں میں چمک اور لہجے میں خوش جھلکنے لگتی تھی۔ کُنڈا ہیل جانا اور اس چراگاہ کو دیکھنے کی آرزو بڑے عرصے سے تھی۔ بیرون ملک پانچ سال گزارنے کے بعدسیاحتی حس مزید بیدار ہوئی۔ امید تھا کہ گاوں جانے کے بعد کچھ آوارہ گردی ضرور ہوگی۔ ہلکا سا خدشہ یہ بھی تھا کہ گاوں میں سارے دوست کاروبارِ زندگی میں مصروف ہوں گے ۔ اور اگر دوستوں کا ساتھ نہ ہوتو آوارہ گردی کو خواری میں بدلتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔

خوش قسمتی سے گاوں میں دوستوں جیسے بھائی اور بھائیوں جیسے دوست موجود تھے۔ ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد علی سرور ، فریاد اللہ ، شاہد سلطان  کے ساتھ مل کر پہلی سیاحتی پروگرام کا  فیصلہ ہوا۔ سلیپنگ بیگ، اشیائے خوردونوش،( یہاں نوش پر زیادہ غور مت کیجئے) اور تین تین شلواروں/پاجاموں /پتلونوں کے ساتھ ساتھ وائلن اور تُمبک کا بھی اہتمام کیا گیا۔  فیصلہ ہوا کہ ذیشان ہمیں یرزریچ تک کار میں لے جائے گا، جہاں سے ہم ٹریکنگ/ہائکنگ کرتے ہوے چار یا پانچ گھنٹوں میں جائے مقصود تک پہنچ جائیں گے۔ ایک رات گزارنے کے بعد اگلی شام کو ذیشان پھر ہمیں کار میں اُٹھانے کے لئے آستانہ پنجہ شاہ کا  طاق طواف کرتے ہوے واپس آئے گا۔

9 بجے روانگی کا منصوبہ تھا۔ 12 بجے کو اصل روانگی ہوئی۔ سوست سے لنچ پیک لے کر ہم چپورسن کی طرف روانہ ہوگئے ۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ لنچ "ویر خون"، وخی میں تنہا گھر، نامی جگہے پر کیا جائے گا۔

روداد کو مزید آگے لیجانے سے پہلے ذرا ہمسفر دوستوں کا مختصر تعارف لکھ دیتا ہوں۔

فریاد اللہ بیگ صاحب گلمت مین "سٹون ایج کیفے" چلاتے ہیں۔ شاعرانہ مزاج کے انسان ہیں۔ وائلن ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں۔ پہاڑوں میں گھومنا اور پتھروں پر غور و فکر کرنا ان کے مشاغل میں شامل ہیں۔

علی سرور صاحب ایک عالمی ترقیاتی ادارے میں بطور سپیشلسٹ کام کرتے ہیں۔ افریقہ اور دیگر ممالک میں کام کرنے کے بعد آج کل گھر سے ہی کام میں مصروف ہیں۔ شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں۔ گلوکاری کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ صیح معنوں میں سیلف میڈ شخصیت ہے۔

شاہد سلطان صاحب کراچی میں ایک لا فرم کے ساتھ کافی سالوں تک کام کرنے کے بعد اب کاروبار میں مصروف ہیں۔ پہاڑوں کو خوب جانتے ہیں اور اس سفر میٰں ہمارے گائیڈ تھے۔

راقم الحروف کا تعارف بس اتنا ہے کہ آوارہ خیالی اور آوارہ گردی کے درمیان ڈولتے رہنے کی خواہشِ نامراد کا مالک ہے۔

جاری ہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔