ہنزہ،بشمول گوجال، سمیت گلگت بلتستان کے بہت سارے علاقوں میں اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لئے جب خاوند کا گھر تنگ ہوجاتا ہے، اور والدین کے گھر سے بھی دھتکارا جاتا ہے، تو بیٹی کے پاس اوپشنز بہت محدود ہوجاتے ہیں۔
زبانی کلامی ہمیشہ یہ کہا جاتاہے کہ باپ کا گھر بھی بیٹی کا گھر ہے اور بھائیوں کا بھی، مگر ایسا عملی طور پر کم ہی ہوتا ہے۔
جائیداد/گھر/آمدنی سے محروم بہت ساری بیٹیوں پر زمین تنگ ہوجاتی ہے تو ذہنی دباو اور پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بے یقینی اور بے بسی کے عالم میں ہمارے معاشرے کی بہت ساری اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں۔
یہ ہمارے معاشرے کا ایک شرمناک پہلو ہے جس پر گفتگو کرنے سے ہم کتراتے رہے ہیں۔ ہمیں اس مسلے پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
بیٹیوں اور بیٹوں کو اچھی تعلیم دینا والدین اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن صرف تعلیم سے مسلہ حل نہیں ہوتا ہے۔
خاندان کی جتنی بھی جائیداد ہو اس میں بیٹیوں کو ہر صورت حصہ ملنا چاہیے۔
آپ اس معاملے پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
No comments:
Post a Comment
Your comment is awaiting moderation.