Thursday, January 30, 2020

دادی کی وفات


دادی کو گزرے دس روز ہوچکے ہیں۔
موت کیا ہے؟ زندگی کا نہ ہونا۔ سانسوں کا رُک جانا۔ خاک کا خاک میں مل جانا۔ اصل میں واصل ہونا؟
چه گویم، چه دانم، که این داستان
فُزون است از حدّ و امکانِ ما
- مولانا رومی
چمنگل (گلمت) میں واقع اجتماعی قبرستان میں ان کی آخری آرامگاہ کی ایک تصویر آج دیکھی۔ برف سے سے بچانے کے لئے تازہ لحد پر ایک پلاسٹک بچھا دی گئی ہے۔ قبر کے سرہانے مٹی کے تیل سے جلنے والی ایک لالٹین رکھی گئی ہے۔ قبور کے گرد ایک خاردار تار بچھی نظر آرہی ہے، پالتو اور جنگلی جانوروں کو دور رکھنے کے لئے۔ اطراف میں برف کی موٹی تہہ سی بچھی ہے، جس کے درمیان کچھ اور عزیز ہستیاں آسودہ خاک ہیں۔ سنگ مرمر کے ٹکڑوں پر نام، ولدیت، اہم تواریخ، کچھ آیات کریمہ، اور چند دیگر عبارات بھی نظر آرہی ہیں۔
خدا رحمت کند این عاشقات پاک طینت را!
تقریباً چورانوے برس قبل (1936) میں اپنے علاقے کے معروف زمیندار رحمت شاہ کے ایک گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ نام بی بی نازون رکھا گیا۔ اکلوتی بیٹی تھی۔ نازوں سے پالی گئی۔ سکندر خان (دادا) سے شادی کےبعد ان کی زندگی کے کئی سال گلگت شہر کے محلہ خومر میں گزرے۔ دادا ان دنوں ٹی اینڈ ٹی نامی سرکاری ادارے میں ملازم تھے۔
خومر میں ہی ان کی بڑی بیٹی، ہماری پھوپھی، بی بی نصرت 18 یا 19 سالوں کی عمر میں بیماری کے سبب وفات پاگئی۔ ہماری پھوپھی نصرت (مرحومہ) خومر گلگت میں مدفون ہے۔ پھوپھی کی وفات کے بعد دادی نے خاندان سمیت گلگت شہر چھوڑ دیا۔ یہ میری پیدائش سے کافی پہلے کا واقعہ ہے۔
بعد میں دادی سے کئی بار سنا کہ جوانسال بیٹی کی اچانک وفات کے بعد ان کے لئے گلگت شہر میں رہنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ گلگت سے مستقلاً گلمت منتقل ہونے کے بعد بھی دادی اپنی بڑی بیٹی کو کبھی بھول نہ پائی۔ پھوپھی کے زیر استعمال متعدد اشیا آخری وقت تک دادی کے پاس حفاظت سے موجود تھیں۔ دادی ہمیں ہمیشہ بتاتی تھی کہ ان کی بڑی بیٹی کی ناگہانی موت نے ان کو بہت توڑ دیا تھا۔ دادا جان پارکنسنز نامی بیماری کی وجہ سے طویل علالت کے بعد اپریل 1995 میں، تقریباً پچیس سال قبل، وفات پاگئے تھے۔
تمام تر مصائب سے گزرنے کے باوجود بھی دادی ہمیشہ صابر اور شاکر رہی۔ ہمیشہ اپنے اولاد کے حق میں دُعاکرتی تھی، اور اللہ کا شکر ادا کرتی تھی۔
پیدائش سے جوانی تک دادی کی محبت اور ان کی دُعائیں ملیں۔ زندگی کے ہر موڈ پر انہوں نے ہماری ہمت بڑھائی اور حوصلہ افزائی کی۔ چھٹی پر گھر جاتے وقت ہم سب کی عادت تھی کہ دادی کے لئے ان کے فیورٹ کیک علی آباد ہنزہ سے خرید کر جاتے تھے۔ اگلی بار جاتے وقت کیک خرید تو لوں گا مگر دادی نہیں ہوگی۔ ان کی ہاتھوں کو بوسہ دینے کا شرف حاصل نہیں ہوگا۔ ان کی باتیں اور دُعائیں سننے کے لئے کان ترسیں گے۔ یہ سب سوچ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ لمحات ہیں جب آپ کو احساس ہوجاتا ہےکہ یہ جُدائی مستقل ہے۔
دادی اپنے مذہب کے اصول پر سختی سے کاربند تھی۔ جب تک ان کی بینائی ساتھ دے رہی تھی وہ روزانہ عبادت کے لئے جماعتخانہ جاتی تھی۔ بینائی متاثر ہونے کے بعد وہ گھر پر ہی اپنی عبادات باقاعدگی سے انجام دیتی تھی۔ ہم خاندان والوں کے لئے وہ سراپا رحمت اور برکت تھی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ پاک ان کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائے۔ آمین۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔