Friday, March 02, 2018

نیو یارک کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب وے میں کچھ مشاہدات

سب وے نیویارک کی جان ہے۔

سب وے دراصل زیرِ زمین ریلوے کا ایک پیچیدہ اور وسیع نیٹ ورک ہے۔ لندن میں "ٹیوب" کہلاتا ہے۔ ہر منٹ لاکھوں افراد سب وے کے ذریعے شہر کے ایک حصے سے دوسرے تک سفر کرتے ہیں۔ بہت سارے روٹس ہیں۔

میری بیوی روزانہ تین گھنٹے دفتر آنے جانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ میرا تو دماغ چکرا جاتا ہے سوچ کر بھی۔ تین گھنٹے میں تو بندہ گلمت سے بور ہو کر گلگت پہنچ جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ راستے میں عطا آباد جھیل، ٹنلز، مرکزی ہنزہ کی خوبصورتی، راکا پوشی اور نگر کے شاندار نظارے اور قدرت کے لاکھوں شاہکار دل موہنے کو تیار کھڑے ہیں۔ اور یہاں تین گھنٹے زیرِ زمین سفر، ایک ڈبے کے اندر۔

روٹس کو یاد رکھنا، اور ایک ٹرین سے دوسرے تک منتقل ہونا بھی ایک عذاب سے کم نہیں ہے۔ اچھے خاصے "تجربہ کار" افراد بھی بعض اوقات دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔ اور "جانا تھا جاپان، پہنچ گئے چین ۔۔۔۔ سمجھ گئے ناں" والا معاملہ بن جاتا ہے۔ شکر ہے گوگل میپ کا جو راہنمائی کے لئے موجود ہے، لیکن تمام تر سہولیات کے باوجود بعض اوقات بندہ "گُم" جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں سب وے کے ذریعے سفر کر رہا تھا۔ ایک سٹیشن پر بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص ٹرین پر چڑھ گیا۔ پریشان الحال لگ رہا تھا۔ بلند آواز میں گفتگو کا آغاز کیا۔ "کین آئی ہیو یوور اٹینشن پلیز"۔

منظر مانوس سا تھا۔ مجھے ایک لمحے کے لئے لگا کہ میں "خان کوچ" میں بیٹھا ہوں۔ کراچی شہر ہے، اور ذہن کے نہاں خانوں میں آواز گونجی، "حضرات، چند منٹون کے لئے آپ کی توجہ درکار ہے۔ "

لمحات ایک جیسے تھے، لیکن منظر میں فرق تھا۔ کہاں خان کوچ کی رنگین چھت اور کہاں سب وے ٹرین کی اشتہارات سے مزین دیوار۔ کہاں خان کوچ کی کھلی کھڑکیاں اور دروازے، اور ان سے اندر امڈتی بدبو، اور کہاں سب وے کی صاف ستھری ہوا اور روشن ڈبے۔ وہاں پان تھوکتے یا پھر ماوا کھاتے سرخ دانتوں کا دیدار اور یہاں گوری چٹی اور کالی ، ہر دو، چمڑیوں کی بہار۔ (نوٹ: آپس کی بات۔ یہ جملہ ایسے ہی زیبِ داستان بڑھانے کے لئے تحریر کی ہے۔ سردی اتنی ہے کہ سب گرم اور "مکمل" کپڑے پہنتے ہیں۔ مفلرز، لمبی جوتیاں، لمبے کوٹ، رنگ رنگ کی ٹوپیاں، اور سر تا پا پردہ۔ چمڑی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ گرمیوں کی بات یقیناً الگ ہوگی، ایسا میں نے سُنا ہے۔)

وہاں کراچی میں بس کے دروازے کے قریب کھڑا کنڈکٹر دروازے کی ایسے بجاتا تھا کہ پورا بس ہل جاتا تھا اور یہاں کونے میں ایک جوڑا بوس و کنار میں مصروف ہے۔ ہاں، البتہ ٹرین کی آواز بھی بڑی زوردار ہوتی ہے۔ منظر مانوس سا تھا۔ لیکن تفصیلات الگ الگ تھیں۔

میں خیال سینیما میں لگے کراچی کی فلم سے نکل کر، بلکہ بھاگ کر، نیویارک پہنچا، اور آواز لگانے والے شخص کی طرف توجہ دینے لگا۔ اس کی نظر بھی مجھ پر پڑی، کیونکہ وہ بھانپ گیا تھا کہ میرے علاوہ کوئی اور اس ڈبے میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں بھی جھانپ سا گیا۔ اور نظریں پھیر لیں۔

بلند سی آواز آئی، "میں سابق فوجی (ویٹرن) ہوں۔ عراق اور افغانستان میں لڑ چُکا ہوں۔ ملک کی خدمت کی ہے۔ آج کل مالی پریشانی کا شکار ہوں۔ اگر کوئی ایک ڈالر دے سکتا ہے تو بڑی مہربانی ہوگی۔"

مجھے حیرت سی ہوئی۔ سابق فوجی ٹرین میں بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی۔ ہمارے وہاں تو سابق فوجی حاضر سروس فوجیوں سے بھی زیادہ رعب دار ہوتے ہیں۔۔۔۔ بہت سارے صوبیداروں اور حوالداروں کے چہرے خیال سینیما کی سکرین پر جلوہ گر ہو گئے ۔۔۔۔

"میں سابق فوجی (ویٹرن) ہوں۔ عراق اور افغانستان میں لڑ چُکا ہوں۔ ملک کی خدمت کی ہے۔ آج کل مالی پریشانی کا شکار ہوں۔ اگر کوئی ایک ڈالر دے سکتا ہے تو بڑی مہربانی ہوگی۔"

تقریباً مشینی انداز میں اس شخص نے وہی جملے ادا کئے اور ڈبے کے بیچ میں سے لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوے دوسرے دروازے تک پہنچ گیا۔

کسی نے سر اُٹھا کر نہیں دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سینیما میں نورجہان کا نغمہ "اے پتر ہٹاں تے نئیں ۔۔۔۔۔۔۔ " چلنے لگا۔

سٹیشن آگیا، اور بندہ اتر گیا۔

یہاں بے گھر لوگوں کی بڑی تعداد ہے، جن میں سے بہت سارے سابق فوجی ہیں۔ مطالعے سے معلوم ہوا کہ فوج میں چند سال گزارنے کے بعد ایسے افراد کافی سارا پیسہ کما لیتے ہیں، لیکن بہت سارے جمع شدہ پونجی جلد ہی اُڑا دیتے ہیں۔ کچھ سال گزارنے والوں کو پینشن نہیں ملتا، اس لئے جلد ہی سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کے لئے ادارے بھی ہیں، اور بہت ساری نوکریوں میں ان کو ترجیح بھی دی جاتی ہے، لیکن بہت سارے دوبارہ کام کرنے کی بجائے سب وے کا رُخ اختیار کرتے ہیں۔

پھر یونہی ایک خیال آیا کہ اگر امریکہ میں داخلی امن و امان کی صورتحال پاکستان جیسی ہوتی تو شائد سابق فوجی سیکیورٹی کمپنیاں بنا کر یا ان میں کام کر کے برسرِ روزگار رہ سکتے تھے، لیکن یہاں پولیس کا نظام کافی بہتر ہے، اس لئے ہر بڑا دکاندار اپنی سیکیورٹی کے باوردی گارڈز نہیں رکھتا۔

سیکیورٹی کمپنیاں بھی ہیں، لیکن شائد ان میں بھی سارے سابق فوجیوں کی کھپت ممکن نہیں ہوتی ہے۔

ایک اور خیال یہ آیا کہ اگر یہ شخص "شہید" ہوجاتا تو شائد اعزاز کے ساتھ دفنایا جاتا اور خاندان کی کفالت کا بھی کوئی نہ کوئی بندوبست ہو ہی جاتا، لیکن یہ "غازی" بن کر خوار ہورہا ہے۔

یا پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ کوئی شعبدہ باز ہو اور لوگوں کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنے کے لئے سابق فوجی کا سوانگ رچا رہا ہو۔

سُنا ہے کہ ایسے ڈھونگی بھی بہت سارے موجود ہیں شہر میں ۔۔۔۔ ہمدردی سنبھال کر رکھنی پڑے گی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔