Tuesday, March 06, 2018

نیویارک کہانی ۔۔۔۔۔۔۔ کوڈ بلیو اور ساغر صدیقی



نیویارک سرد علاقہ ہے۔ یکم نومبر سے اب تک تسلسل کے ساتھ برفباری یا بارش ہورہی ہے، زیادہ تر بادل چھائے رہتے ہیں، اور کبھی کبھار سورج کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ گھروں میں درجہ حرارت سینٹرل ہیٹنگ سسٹم کے تحت گرم پانی کی مدد سے بہت اچھا رہتا ہے، لیکن باہر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کبھی کبھار منفی بیس درجے تک بھی نیچےگر جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت اور ریاستی اداروں کو بے گھر اور غریبوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔
 فکر ہمارے وہاں بھی یقیناً لاحق ہوتی ہوگی، لیکن وہاں صرف فکری ہوتی ہے، یہاں سردیوں سے متاثرہ بے گھر افراد کو بچانے کے لئے ایک نظام  بھی موجود ہے۔ 

سردی حد سے زیادہ ہوجائے تو ریاست نیویارک کی پولیس اور انتظامیہ اعلان کرتے ہیں کہ "کوڈ بلیو" نافذ العمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بے گھر افراد کسی بھی ریاستی مرکز میں داخل ہوکر رات گزار سکتے ہیں، تاکہ سردی کی وجہ سے ان کی موت واقع نہ ہو۔ ایسے افراد کی مدد کرنے کرنے کے لئے یہاں بہت سارے ادارے ریاستی اور غیر سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں، مثلاً شیلٹر (دارالامان سمجھ لیجئے)، ڈراپ ان سینٹر (جن میں آپ کسی بھی وقت ہنگامی صورتحال میں داخل ہوسکتے ہیں) اور سیف ہیونز (محفوظ پناہ گاہیں)۔

ان اداروں میں بنیادی فرق داخلے کے طریقہ کار میں ہے۔ عام حالات میں  بعض  اداروں میں آپ بآسانی داخل ہوکر سہولیات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، جبکہ بعض میں داخل ہونے کے لئے کچھ شرائط پر پورا اترنا لازم ہوتا ہے۔ کوڈ بلیو کے نفاذ کے دوران یہ تمام شرائط معطل کردئیے جاتے ہیں، اور کوئی بھی مصیبت زدہ شخص ان اداروں میں داخل ہو کر سردی سے پناہ حاصل کرسکتا ہے۔ کوڈ بلیو کے دوران کسی بھی متاثرہ شخص سے کوئی بھی کاغذات نہیں مانگے جاتے ہیں۔ یہ خالص انسانی جان بچانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ عام شہری بھی ۹۱۱ پر کال کر کے بے گھر اور ضرورتمندوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں، اور حکومتی کارندے آکر انہیں عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ 

اس موثر نظام کی موجودگی سے مجھے تو یہ پیغام ملا کہ یہاں انسانی زندگی کی بہت قدر ہے۔

اور ہاں، کوڈ بلیو کے اعلان کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ساغر صدیقی کی تصویر گھوم جاتی ہے۔


جی وہی تصویر جو سوشل میڈیا پر کبھی کبھار احباب شیر کرتے ہیں۔ 

کوڈ بلیو کے اعلان کے ساتھ ہی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اگر ہمارے وہاں بھی کوڈ بلیو کا نظام ہوتا تو شائد ساغر صدیقی اس رات سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر نہ مرتا۔ 

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا 
میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا 
دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر 
تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔