Sunday, November 16, 2014

معصومیت کا قتل


ننھے حسنین کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اس معصوم کا بہیمانہ طریقے سے خون کرنے والے کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک جرم یہ کیا کہ ایک معصوم بچے کو جنسی استحصال کانشانہ بنایاجو ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اسکے بعد انہوں نے حسنین کو مزید تنگ کرنے کی کوشش کی، جو جنسی ہراسیت کے قانون کے تحت قابلِ تعزیر جرم ہے۔ ہراساں کرنے، یا پھر حسنین کو ڈرانے ، خاموش رہنے پر مجبور پرکرنے، میں ناکامی کے بعد انہوں نے اسے ہمیشہ کے لئے موت کے گھاٹ اتارنے کافیصلہ کیا۔ اور پھر سفاکانہ طریقے سے اپنے منصوبے پر عمل بھی کرگئے۔ 

مجرمانہ ذہن کے حامل ان کمسن ملزموں نے شاطرانہ انداز میں بچے کی لاش کو بہلا پھسلا کر قتل کرنے کے بعد دریائے گلگت کے کنارے چھپا دیا۔ اور لاش پر پتھر بھی لاددئیے۔ اپنے تئیں انہوں نے جرم کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس معاملے میں بعض معاملات تو عدالت میں ہی کھلیں گے، جیسے کہ کیا تینوں بچوں نے قتل کرنے سے پہلے حسنین کو تشدد کا نشانہ بنایا؟ موت کس چوٹ کی وجہ سے ہوئی؟ مہلک وار کس نے کیا؟ چھرُا کس نے گھونپا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دستیاب معلومات سے یہ عیاں ہو رہا ہے کہ تینوں ملزمان نے کم از کم قتل ہوتے ہوے دیکھا، اور جرم کو چھپانے کی کوشش بھی کی۔ جُرم شدید نوعیت کی ہے اور جرم کو چھپانے کے لئے ملزمان نے متعدد اقدامات بھی اُٹھائے تھے۔ وہ تو شکر ہے کہ شہر میں کیمرے لگے ہوے ہیں، جسکی وجہ سے پولیس اہلکار بہت جلد مجرموں کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوگئے، اور خبروں کے مطابق شعیب نامی ایک لڑکے نے اقبالِ جرم بھی کیا ہے۔بلکہ اسی کی نشاندہی پر پولیس نے ننھے حسنین کی تشدد زدہ لاش بھی برآمد کی۔

پولیس نے ایف آئی آر بھی درج کی ہے، اور عدالت نے مجرموں کوجسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے بھی کردیا ہے۔ آج معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے مذکورہ ملزمان کے خلاف انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت کیس درج کرنے کی حامی بھری ہے۔ 

اب پولیس سے توقع یہ ہے کہ بغیر کسی کے دباومیں آئے قانونی تقاضوں کو پورا کرے اور انصاف کی فراہمی میں عدالت کی اعانت کرے ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ تاثر مزید مضبوط ہو جائیگا کہ طاقت اور اثر و رسوخ والے تمام جرائم کے بعد بھی محفوظ رہتے ہیں اور مخصوص عدالتیں صرف حقوق مانگنے والوں ، سیاسی کارکنوں اور بے اثر و بے رسوخ افراد کو سزائیں دینے کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ 
ہمارے قانون بنانے والے اداروں کی کمزوری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی اور متعدد معاملات میں جانبدارانہ اقدامات کی وجہ سے عدالتی نظام پر لوگوں کا اعتماد نہیں رہا ہے ۔ اسی لئے ہر کیس کے بعد انسداد دہشتگردی عدالت جانے کامطالبہ کیا جاتاہے۔ اس نکتے پر غور کرنے اور معاملے کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں پر زیادہ انحصار دیگر عدالتوں کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ 

پورے گلگت بلتستان میں جو بھی اس واقعے کے بارے میں سنتا ہے، وہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا ہے، شدید حیرت کا اظہارکرتا ہے، نفرت کا اظہار کرتا ہے، اور مجرموں کے لئے سخت ترین سزا، یعنی موت کی سزا ، کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس عمل پر یقیناًسب کوغصے، دکھ اور نفرت کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہے ہی اسی کے مستحق۔ آج گلگت شہر میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین ، بچوں ، بچیوں اور مردوں نے اس اندوہناک واقعے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔ سول سوسائٹی کا اتحاد اور ایک اہم مقصد کی خاطر اس طرح سڑکوں پر آنا خوش آئند ہے ۔ خصوصا، بچوں اور عورتوں کا سڑکوں پر آنا اور انصاف کا مطالبہ کرنا قابلِ صد تحسین عمل ہے۔ آفرین ان باشعور اور باضمیر بچوں ، مردوں اور عورتوں پر جنہوں نے ننھے حسنین کے لئے گھروں سے نکل کر انصاف مہیا کرنے والوں اور قانون بنانے والوں اور اس پر عمل درآمد کرنے والوں کو جگانے اور للکارنے کا حق ادا کیا۔ 

میرا خیال ہے کہ کچھ روز قبل صرف ایک معصوم بچہ قتل نہیں ہوا، بلکہ معصومیت بھی موت کے گھاٹ اترا۔قتل کے اس واقعے میں ان تین کم سن ملزمان کی معصومیت بھی ختم ہوگئی ہے ۔ جی۔ بالکل۔ یہ اس جُرم کے ذمہ دار تو ہیں ہی (اور عدالت سے توقع ہے کہ کچھ دنوں میں اس ضمن میں مزید حقائق سے آگاہ کرے گی)، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کم سن ملزمان خود اس جرم کے شکار بھی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ یہ سارے کم سن ملزمان عادی مجرم نہیں ہیں۔ ان سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی ، اور اس بہت بڑی غلطی کو چھپانے کے لئے انہوں نے اس سے بھی بہت بڑا جرم کردیا۔ میرے خیال میں تو یہ تین ملزمان بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ 

جی نہیں۔ میں ان کے لئے رعایت نہیں مانگ رہا۔ ان کی وکالت بھی نہیں کر رہا۔ اور نہ ہی میں ان کو جانتا ہوں۔ انکے نام بھی میں نے صرف اخبارمیں چھپنے والے رپورٹس میں پڑھا ہے اور انکے خاندانوں کو بھی میں نہیں جانتا۔ 

میرے خیال میں یہ ہمدردی اور توجہ کے مستحق اس لئے ہیں کیونکہ یہ ہمارے معاشرے سے علیحدہ نہیں بلکہ اسی بیمار معاشرے کی پیداوار ہیں۔ اور بیمار معاشرہ صرف گلگت شہر، گلگت بلتستان یا پاکستان نہیں ، بلکہ میں ایک عالمی معاشرے کی بات کر رہا ہوں جس میں تشدد، زور زبردستی، چھینا جھپٹی،سینہ زوری اور سفاکیت کے بل بوتے پر لوگ اپنی خواہشات پوری کرتے ہیں ۔ اور ایسا کرتے وقت وہ نہ تو انسانیت کو خاطر میں لے آتے ہیں، نہ وہ اپنی والدین کی تربیت کو، اور نہ ہی مذہب کی تعلیمات ان کو یاد رہتی ہے۔ یہ معاشرے سے سیکھتے ہیں، اوراسی بیمار معاشرے میں رہتے ہوے نہ صرف خود بیمار ہوجاتے ہیں، بلکہ اپنی ذہنی اور فکری بیماری سے دوسروں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ 

اگر آپ کہتے ہیں کہ حسنین کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہمارے علاقے کا پہلا واقعہ ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اور شائد آخری بھی نہ ہو۔ وادی یاسین (غذر) سے تعلق رکھنے والے ہمارے سکول جونیر مسلم خان کے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ اس نے ظالموں کے چنگل سے بھاگ کر دریا میں کود نے کو ترجیح دی تھی۔ کیا مسلم خان کو دریا میں کودنے پر مجبور کرنے والوں اور اسکے جنسی استحصال کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی ہے؟ کشروٹ میں رہائش پزیرجگلوٹ سے تعلق رکھنے والے بچے کے اغوا اور قتل کے بعد بچوں کی حفاظت کے لئے معاشرے اورحکومت کی سطح پر کونسے عملی اقدامات اُٹھائے گئے ؟ اولڈینگ سکردو میں پچھلے سال ننھی بچی کو جنسی استحصال کا شکاربنانے والوں کے سیاہ کرتوت سے آگاہ ہونے کے بعد ہمارے معاشرے نے بحیثیت مجموعی کونسا سبق سیکھا اور کس طرح کے عملی اقدامات اُٹھائے؟

کیا ہمارے پاس ایسے ادارے اور ایسی فکر موجود ہے جو ہمیں ان واقعات سے سیکھنے اور مستقبل میں ان سے بچنے کے لئے تیار کر سکے؟ کیا حسنین کے واقعے کو ہم اگلے واقعے تک یاد رکھیں گے اور پھر بھول جائیں گے؟ 

قانون ساز اسمبلی کا اس ضمن میں قرار داد پیش کرنا اور ننھے حسنین اور ان سے قبل جنسی استحصال اور تشدد کا نشانہ بننے والوں کے لئے محض انصاف کا مطالبہ کافی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے پر قرار داد پہلے کیوں پیش نہیں کی گئی اور اس معاملے کو پہلے زیرِ بحث نہیں لایا گیا؟ کیا ہمارا معاشرہ اس حقیقت سے بے خبری کا دعوی کرسکتا ہے کہ ہر سال ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں جنسی ہراسیت اور جنسی استحصال کے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں؟ کیا ہمارے پولیس اہلکاروں اور سیاسی ، سماجی اور مذہبی رہنماوں کے علم میں یہ بات ہے کہ ہمارے معاشرے کی نام نہاد امن پسندی اور محبت اور یگانگت کے خوشنما پردے تلے ہزاروں جرائم پنپ رہے ہیں؟ اگر ان کے علم میں نہیں ہے تو یہ کس بات کے رہنما ہیں، اور اگر ان کو حقائق معلوم ہیں تو کیا یہ رہنمائی کا حق ادا کررہے ہیں؟ 

ان سوالات کے جوابات ہمیں ڈھونے ہونگے ۔ اور اس کے لئے ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ لیکن صرف بیٹھنے اور باتیں کرنے یا لکھنے اور سوشل میڈیا پر پھیلانے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔ ان بہیمانہ جرائم کو روکے کے لئے ہمیں غیر معمولی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ وقتی ردِ عمل سے ہمارے مافی الضمیر کا اظہار تو ہوگا، لیکن اس سے معاشرے میں بدلاو نہیں آسکتا۔

فی الوقت ایک کام جو پورے گلگت بلتستان میں کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے بچوں اور بچیوں کو کسی نہ کسی طرح سے اس معاملے کے بارے میں دانشمندی سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں باور کروایا جائے کہ ان کا مستقبل اور ان کی زندگی محفوظ بنانے میں معاشرہ ، انتظامیہ اور حکومت سنجیدہ ہے اور انہیں اس معاشرتی بیماری کے خلاف لڑنے کے لئے فکری اور عملی طور پر تیار کیا جائے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ گلگت بلتستان کے تمام سکولز حسنین کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کے لئے کسی ایک دن کو ایک مقررہ وقت پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کرے۔ اُسی دن، مختلف پروگرامز کے ذریعے جنسی استحصال کے متعلق آگاہی کے سیشن بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ آگاہی کے سیشنز اگر سکولوں میں مستقل طور پر رکھے جائے اور اس سلسلے میں وزارت تعلیم اور پرائیویٹ سکولز کے بورڈز بھی لائحہ عمل طے کرے اور وسائل مہیا کرے تو بہت اچھا ہوگا۔ بچوں اور بچیوں کے جنسی استحصال اور ان پر زبردستی کے خلاف ایک طویل فکری اور عملی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔حسنین کے بہیمانہ قتل کو اس طویل جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہونا چاہیے۔ 

یہ مضمون روزنامہ بادشمال میں بھی شائع ہوا ہے. 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔