Wednesday, January 04, 2012

عطاآباد ہنزہ کے ملبے سے آنے والی ایک آواز (January 4, 2010)



بلند و بالا کوہساروں کے دامن میں

جہاں پہ برف پڑتی ہے

جہاں سانسیں بھی جمتی ہیں

دیار سرد میں

جب دھوپ پڑتی ہے

تو سب کو اچھا لگتا ہے!

میں سورج دیکھ کر

خوش ہو کے

اپنے چھت پہ نکلا تھا!

بہت اچھا سماں تھا

مد بھری آوازیں آتیں تھیں

ہوا کے گیت

دریا کی صدا

بچوں کی کلکاری

میں اس گمنام خطے کے

کسی جنت نما گوشے میں

اک بوسیدہ چھت پہ بیٹھ کے

خوش تھا

بہت خوش تھا!

یکایک آسماں لرزا

مہیب آوازیں آ ئی

شور اٹھا

اک چٹان ٹوٹا

فضا نے رنگ بدلا

اور دریا تھم گیا جیسے

نہ جانے کتنے لمحے گزریں ہونگے

میں کہاں گم تھا!

میرے بچے

میرا گھر

کھیت میرے

پرکھوں کی قبریں

ہزاروں باتیں مجھ کو یادآئی

چند سانسوں میں

نہ جانے کیا ہوا پھر!

ا ک عجب سیلاب آیا

گھر میرا اکھڑا

میں چھت پہ تھا

میں سب کچھ دیکھ کر بھی

کچھ نہیں سمجھا

اور اب تاریک خا موشی ہے

کچھ بھی تو نہیں ہے اب

نہ  آوازیں

نہ  کلکاری

نہ شوخی

اور نہ نادانی

نہ سورج کی تمازت ہے

نہ سردی کا اثر ہے کچھ

مگر میں سوچتا ہوں

میرے بچے، میری بیوی

میری ماں

اور  گاوں والے

سب کہاںہوں گے؟

وہ جانے اب کہاں ہونگے؟

نہ جانے اب کہاں ہوں میں؟

1 comments:

علی احمد جان نے لکھا ہے کہ

bohot khob

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔