Tuesday, May 05, 2020

قبرستان اپارٹمنٹ



کراچی میں رہائش کے دوران ایک روز ہمیں ڈائمنڈ پلازہ نامی بلڈنگ میں واقع اپارٹمنٹ سے نکل جانے کا حکم ملا۔ فوراً دوسرے گھر کی تلاش شروع ہوگئی۔ مالی حالت اچھی نہیں تھی، اسلئے بلڈنگ میں اپارٹمنٹ نصیب نہ ہوا۔ نتیجتاً تلاش بسیار کے بعد لسبیلہ چوک (سگنل) پر واقع نعمان مسجد کے عقب میں ایک قبر نُما مکان میں منتقل ہونا پڑا۔ چھوٹے سے مکان میں ہم تقریباً آٹھ افراد رہ رہے تھے۔ ایک نسبتاً بڑا کمرہ تھا، جس کے سامنے، داخلی دروازے کے قریب، 4 * 10 کا ایک کمرہ تھا۔ عمارت میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ چھت کے قریب ایک طرف ایک مستطیل روشندان موجود تھا۔

اس عمارت میں رہائش ہماری زندگی کاتلخ ترین تجربہ تھا۔ بجلی چلی جانے کی صورت میں گرمی اتنی بڑھ جاتی تھی کہ رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ ایک باتھ روم اور ایک کچن اپارٹمنٹ (نہ جانے کیوں اس مکان کو اپارٹمنٹ لکھتے ہوے میری ہنسی نکل جاتی ہے) میں موجود تھا، مگراتنا چھوٹا کہ اندر داخل ہونے پر قبر کی اندھیری رات کا تجربہ ملتا تھا۔

غسل خانے کے ساتھ ایک اور مسلہ بھی تھا۔ یہ رہائشی کمرے کی فرش سے تقریباً ایک فٹ اوپر (نہ جانے کس فلسفے کے تحت) تعمیر کیا گیا تھا۔ اور اس پر قیامت یہ تھی کہ باتھ روم کا ٹِن سے بنا دروازہ نیچے سے اسطرح کھلا ہوا تھاکہ اگر کوئی فرش پر لیٹ کر دیکھتا تو اندر جاری تمام کاروائیاں نظر آتی تھیں۔

باقی صورتحال آپ خود سمجھ سکتے ہیں!

جون یا جولائی کی ایک رات گرمی اتنی شدید تھی کہ قبرستان اپارٹمنٹ کی فرش اور اس کی دیواریں بھی تندور کی طرح گرم ہوگئی تھیں۔ بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ ہم لوگوں نے باہمی مشاورت سے عمارت کی چھت پر چڑھ کر سونے کا ارادہ کرلیا۔
چھت پر پہنچے تو متاثرین گرمی کی ایک بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود تھی۔ ہم بھی ٹٹولتے ٹٹولتے جگہے ڈھونڈ کر لیٹ گئے۔ صبح اُٹھ کر دیکھا تو ہمارے ارد گرد سونے والوں میں وہ افراد بھی موجود تھے جو چاندنی چوک (گارڈن ویسٹ) میں ایک تندور پر کام کرتے تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ہم بھی اسی عمارت میں رہتے ہیں تو بہت خوش ہوے۔ ان سے واقفیت بہت ساروں کی تھی کیونکہ نان روٹی ہم انہی کے تندور سے لاتے تھے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شہید ذولفیقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (زیبسٹ) میں تیسرے یا چوتھے سمسٹر کا طالبعلم تھا۔

گھر میں رہائش کے دوران پڑھائی کا تصور کرنا بھی محال تھا، اسلئے رات گئے تک تعلیمی ادارے کے کمپیوٹر لیب اور لائبریری میں بیٹھ کر پڑھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس دوران لیب میں کام کرنیوالے ملازموں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ دیر تک یونیورسٹی میں رہنا میری ضرورت اور مجبوری ہے، تو انہوں نے اعتراض کرنا چھوڑدیا، بلکہ ان کے ساتھ اچھی خاصی دوستی بھی ہوگئی۔

انہی دنوں ہمیں کمپیوٹر پروگرامنگ کا ایک کورس پڑھایا جا رہا تھا۔ میں نے پروگرامنگ سیکھنے کے لئے ایک کمپیوٹر خریدا۔ خریداری کے چند دنوں بعد گھر پر ڈکیتی کی کوشش ہوئی، جسے ہمارے ایک دوست نے شور مچا کر ناکام بنادیا۔ اس خوف سے کہ دوبارہ ڈکیتی ہوگی اور کمپیوٹر ہاتھ سے نکل جائے گا، میں نے کمپیوٹر پیک کر کے اپنے محفوظ رکھنے کیلئے رشتہ دار کے گھر رکھوا دیا۔
چار مہینے تک شائد اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کا تلخ تجربہ ہوا۔ سمسٹر کی طوالت بھی اتنی ہی تھی۔ نتیجہ آیا تو چھ میں سے چار کتابوں میں "ڈی" گریڈ حاصل ہوا تھا، یعنی نمبرات 60 سے 70 کے درمیان تھے۔ پاس ہونے کیلئے کم از کم سی (70 فیصد) حاصل کرنا لازمی ہوتا تھا۔ رزلٹ خراب ہونے کی وجہ سے آغا خان ایجوکیشن سروس والوں نے سکالر شپ کی رقم روک دی، جسے وہ ہر سمسٹر کے آخر میں رزلٹ کی جانچ کے بعد جاری کرتے تھے۔ اگلے سمسٹر میں محنت کر کے کامیابی حاصل کر لی تو سکالر شپ دوبارہ بحال کردی گئی۔

کئی مہینے تک اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کے بعد ہمیں گارڈن ویسٹ میں ہی "علی نگر" نامی عمارت میں ایک اپارٹمنٹ مل گئی۔

نئے اپارٹمنٹ میں متنقلی کی تڑپ اتنی تھی کہ مقررہ تاریخ پرہم صبح نہار بوری بستر ایک سوزوکی میں لاد کر علی نگر کے باہر پہنچ گئے۔ اپارٹمنٹ کے مکین ابھی گھر میں ہی موجود تھے، اور چند دنوں کا وقت مانگ رہے تھے۔ مکینوں کا تعلق بھی ہنزہ کے ایک علاقے سے تھا، اس لئے ہم نے اپنا سامان اپارٹمنٹ کے اندر ہی ایک کمریمیں منتقل کیا اور راضی ہوگئے کہ وہ چند دنوں کے بعد عمارت چھوڑ سکتے تھے۔ ہمارے چند روم میٹس نے البتہ سامان سمیت اسی کمرے میں متقل ہونے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ "قبضہ" مل جائے۔ ہم نے دو یا تین دن دوستوں کے ساتھ ان کے گھروں میں قیام کیا۔

چند روز بعد ہم مکمل طور پر اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے، اور یوں ہمیں اس عذاب سے نجات ملی۔

آج فیس بُک پر علی نگر اپارٹمنٹ کی ایک تصویر دیکھی جس میں عمارت کے باہر ایک ایمبولینس کھڑی ہے۔ تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا گیا ہے کہ عمارت میں کورونا وائرس کا کوئی مریض موجود ہے۔

تصویر دیکھ کر یہ فلم خیال سینیما میں تیزی سے چل پڑی۔

مکمل تحریر >>

Thursday, March 05, 2020

عورت مارچ،سینگ اور دُم

پہاڑی علاقے سے تعلق ہے۔ جب میں بچہ تھا (دل اب بھی بچہ ہے) تو ہماری خوبصورت وادی میں بعض مرد کھیتوں، دکانوں اور دفتروں میں کام کرتے تھے۔ بعض ان تینوں میں سے کسی ایک جگہ اور بعض کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ زیادہ تر عورتیں کھیتوں، مویشی خانوں، کیاریوں میں کام کرنے، پہاڑیوں پرسے جلانے کے لئے لکڑی لانے، بچوں کی دیکھ بھال کرنے، کھانا پکانے، کپڑے دھونے، جھاڑو پونچھا کرنے کے بعد بھی "دن بھر کچھ نہ کرنے" کے طعنیسنتی تھیں۔
"آخر تم دن بھر کرتی کیا ہو"، ایک ایسا مکرر سوال تھا جو ہمارے گھروں اور خاندانوں میں روزانہ نہیں تو ہفتے میں ایک بار خواتین سے ضرور پوچھا جاتا تھا۔
اس ماحول میں پروان چڑھنے کے بعد بچپن سے ہی ہمارے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ عورتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں، وہ کام نہیں ہے۔ اصل کام تو مرد کرتے ہیں، پھر چاہے وہ دن بھر آوارہ گردی ہی کیوں نہ ہو!
میں نے کراچی میں پانچ سال "چھڑا لائف" گزارنے کے بعد اسلام آباد میں سات سال "نیم چھڑا" لائف گزارا، مگرمحکمہ کچن میں میری کارکردگی صفر تھی۔ کراچی میں چھوٹے بھائیوں نے مدد کی، اور اسلام آباد میں بھائیوں اور بہنوں نے۔ کچن میں میری اپنی ذاتی صلاحیت نوڈل پانی میں ڈال کر ابالنے اور چائے بنانیتک محدود تھی۔

نیو یارک شہروارد ہونے کے بعد ابتدا کے کچھ مہینے بیروزگاری کے تھے۔ اکا دکا کام مل جاتا تھا چند گھنٹوں، دنوں، کیلئے۔ باقی وقت ایک

مسلسل بیکاری۔ اس بیکاری کے عالم میں بھی لیکن گھر کے باورچی خانے میں ہاتھ بٹانا میری ترجیحات میں شامل نہ تھا۔ "یہ عورتوں کا کام ہے" والا نظریہ، میری تمام "عقلی، فکری و علمی دلیلوں" کے باوجود بھی کسی چور کی طرح خیال سینیما کے کونے کھدروں میں بیٹھے مجھے باروچی خانے سے دور رکھ رہا تھا۔ (اس کا احساس بعد میں ہوا)۔
بیوی بیچاری دفتر جاتی، وہاں سے آنے کے بعد کھانا بناتی، بچوں کو کھلاتی، برتن دھوتی تھی اور تین بچوں (بشمول اس کے جس کا دل اب بھی بچہ ہے) کے نخرے الگ سے برداشت کرتی تھی۔
میرے ذمے ایک کام تھا۔ بڑے بیٹے کو سکول لیجانا (20منٹ کی واک) اور دوپہر کو اسے واپس لانا۔ ایک روز معمول کے مطابق بیٹے کے ساتھ گھر پہ موجود تھا۔ کوئی مہمان بھی آیا ہوا تھا۔ بیوی دفتر سے واپس آئی، اور کچن میں چلی گئی۔ کچھ لمحوں کے بعد شکایت بھرے لہجے میں کہا، "آپ نے کچرہ بھی باہر نہیں پھینکا ہے اب تک۔ آتش فشاں پھٹ پڑا۔ میری مردانگی پر چوٹ پڑی تھی شائد۔ "میں کیوں لیجاوں؟ یہی کام رہ گیا ہے میرا؟"۔ وہ خاموش رہی (شائد اسلئے کہ گھر میں مہمان موجود تھا)۔ میں باروچی خانے سے نکل بیٹھک میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اپارٹمنٹ کا داخلی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ آواز سُن کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ بیوی کچرا کچن سے اُٹھائے چار منزلہ عمارت کے عقب میں موجود کچرے خانے تک لے گئی ہے۔
بیچاری ابھی دفتر سے آئی تھی، اور ابھی ہی کچرہ لئے چار منزل نیچے چلی گئی۔ اتنا کچھ تو کر رہی ہے ہم سب کے لئے۔ اگر میں کچرہ لیجاتا باہر تو کونسی قیامت آجاتی۔ ذہن میں سوالات گونجنے لگے۔ ندامت کے احساس نے شدت سے گھیر لیا۔
کافی دنوں، اور گفتگو کے مختلف ادوار، کے بعد گاوں میں گزارے بچپن کے دن اور ان سے جڑی یادیں اور احساسات یاد آگئے۔ خیال آیا کہ گاوں اور خاندان میں بھی تو یہی ہوتا ہے۔ دن بھر گھر میں کام کرنیوالی عورت کی مدد کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ہے۔ عورت کھیت میں آلو بھی اگارہی ہے، گندم کو پانی بھی دے رہی ہے، کیاریوں میں سبزیاں بھی اُگا رہی ہے۔ اور سب یہی توقع لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ عورت ہی تمام کام کرنے کے بعد گھر جاکر کھانا پکائے گی اور دیگر تمام امورِ خانہ داری سرانجام دے گی۔
ان حالات میں عورتوں پر جتنا دباو پڑتا ہے اور اس دباو کے جو اثرات پڑتے ہیں ان کی کئی مثالیں میں بہت قریب سے اپنے بچپن میں دیکھا چکا تھا۔ اور مجھے ان مثالوں سے ہمیشہ الجھن ہوتی تھی۔ اس سماجی مزاج کو بچپن میں پسند نہ کرنے کے باوجود بھی میں خود اسی سماجی ڈگر پر چل پڑا تھا۔ یادوں پر شائد وقت نے غبار ڈال دیا تھا!
لڑکپن میں ایک دن امی نے کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کا حکم دیا۔ میں نے تکمیل سے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر بعد امی خود کام نمٹا کر واپس آئی۔ میں یونہی بیٹھا ہواتھا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا، "دیکھ رہی تھی کہ فضول بیٹھے رہنے کے بعد تمہارے سر پر اب تک سینگ نکل آئے ہیں یا نہیں۔" امی کے کاٹ دار جملے نے مجھے پریشان کردیاتھاکچھ لمحوں کے لئے، لیکن ان کی طنزیہ مسکراہٹ نے ہنسا بھی دیا تھا۔
جانوروں کے سروں پر سینگ خوبصورتی اور رعب اور رتبے کی علامت ہوتے ہیں۔ مارخور کے سینگ ہی اس کی اصل شان ہیں۔ ورنہ مارخور اور دوسرے بکروں میں کوئی زیادہ فرق تو نہیں ہوتا! امی کے جملے میں موجود سر پر سینگ نکل آنے والے محاورے کا مقصد یہ تھا کہ فارغ بیٹھنے سے بندے کی عزت نہیں بڑھتی۔
میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ عورتوں سے ہماری توقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ہم اگر فکری اور عقلی، دلیلی، سطح پر ان کی مدد کرتے بھی ہیں تو امورِ خانہ داری کے عملی میدان میں آکر ارادی و غیر ارادی طور پر ہمارے ہاتھ پتھر اور پیر شل ہوجاتیہیں۔ اور اگر ہم گھر میں کچھ کام کرے بھی تو رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پوری امت پر احسان کر رہے ہیں

عورت مارچ کو گالیاں شوق سے دیں۔ گالیوں کی تربیت آپ کو نامور محقق، دانشور، لکھاری، فلسفی، ہدایتکار و تجزیہ نگار خلیل الرحمن قمر کی اقدار، تہذیب اور شائستگی بھری باتوں سیمفت مل سکتی ہے۔ عورت مارچ کے ہر جملے کے ساتھ آپ کا اور ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن یہ کہنا بھی غلطہ ہے کہ عورتوں کو اپنی زندگی پر اختیار نہیں ہونا چاہیے، اور انہیں اپنے حق میں بولنے، لکھنے، چیخنے اور چلانے کا حق نہیں ہے۔ ہم اور آپ، سب، جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں صنفی مساوات فکری سطح پر ہوں بھی تو عملی سطح پر صفر ہے۔
مارچ میں شامل ہونے کے لئے بیشک سڑکوں پر مت نکلیں۔ پوسٹرز بھی مت بنائیں۔ بینرز بھی مت بنائیں۔ لیکن اپنے، اپنے خاندانوں، اور اپنی سماج کے رویے پر غور کرنے کی کوشش میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔
یہاں آمد کے چند ماہ بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دھیرے دھیرے امورِ خانہ داری میں حصہ لوں گا۔ برتن دھونے سے شراکت کا آغازکیا۔ ہمت بڑھی تو چند کوششوں کے بعد کھانا پکانا بھی کسی حد تک سیکھ گیا۔ بچوں اور گھر کی صفائی میں بھی ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔
فارغ اوقات میں بعض دفعہ بے اختیاری کے عالم میں اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر دیکھتاہوں کہ سینگ تو نہیں نکل آئے ہیں، اور کبھی کبھار پیچھے ہاتھ پھیر کر بھی دیکھتا ہوں کہ کام کرنے کی وجہ سے دُم تو نہیں نکل آئی ہے!

آوارہ خیال (نیویارک، 4 مارچ 2020)

مکمل تحریر >>

Sunday, March 01, 2020

کتب بینی


یہودیوں کے آگے بڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ ان کی علم اور عقل سے دوستی ہے۔ کل اس شخص کو ٹرین سٹیشن پر ٹرین کے انتظار کے دوران ایک چھوٹی سی کتاب پڑھتے دیکھ کر اس کی تصویر لی۔

دو سالوں کے دوران میں نے انہیں انہماک کے ساتھ کتب بینی میں مصروف پایا ہے۔ بہت سارے مقدس صحیفے (تورات اور تلمود) پڑھتے ہیں، لیکن دوسری کتابیں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی روزانہ ںظر آتی ہے۔

کراچی میں لسبیلہ سے دو تلوار تک سفر کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ میں بہت وقت گزرتا تھا۔ مگر خان کوچ، 4 کے، 20 نمبر اور 2کے میں پڑھنے کا خیال بھی ذہن سے نہیں گزر پاتا تھا۔ کنڈیکٹر، مسافروں اور ٹریفک کے شور میں کتب بینی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

یہاں منتقل ہونے کے بعد ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور رکھتا ہوں۔ فیس بُک اور کینڈی کرش سے فراغت کے چند لمحات پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں، کبھی کبھار۔

نوجوان دوستوں اور جو عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں انہیں میرا مشورہ ہے کہ کتب بینی کی عادت اپنائیں۔ جب بھی وقت ملے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھیں۔ انشا اللہ جلد یا بدیر فائدہ ضرور ہوگا۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, February 26, 2020

کوہستان میں ایک بار پھر فرقہ واریت کی گونج

کوہستان میں دوران احتجاج کی گئی تقریر، اور ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی دھمکی، در اصل فرقہ وارانہ فسادات کی ہوا چلا کر ایک طاقتور شخص کو بچانے کی بھونڈی کوشش ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کوہستان کے امن پسند باسی ایسی کسی بھی سازش کو روکنے اور رد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

کوہستان میں سیاحت کی ترقی کے بڑے امکانات ہیں۔ اس طرح کی دھمکیاں دینے والے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے خوف و ہراس پھیلا کر کوہستان کے باسیوں کو ترقی اور خوشحالی سے دور رکھنے کی سازش کر رہے ہیں۔

حکومت اور ریاست پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان سے مطالبہ ہے کہ اس شر انگیز تقریر کا نوٹس لیا جائے اورتقریر کرنے والے کے خلاف انسداد دہشتگردی کے قوانین کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے۔

اگر ریاست اور حکومت کے نمائندے خاموش رہیں گے تو ہم اس کا یہ مطلب لیں گے کہ فرقہ وارانہ فسادات کو شہ دینے والوں پر ان کا ہاتھ ہے۔

ہمیں امید ہے کہ سی پیک منصوبے اور سیاحت کی ترقی یقینی بنانے کے لئے شاہراہ قراقرم کو آمد ورفت کے لئے محفوظ بنایا اور رکھا جائے گا۔
مکمل تحریر >>