Thursday, March 05, 2020

عورت مارچ،سینگ اور دُم

پہاڑی علاقے سے تعلق ہے۔ جب میں بچہ تھا (دل اب بھی بچہ ہے) تو ہماری خوبصورت وادی میں بعض مرد کھیتوں، دکانوں اور دفتروں میں کام کرتے تھے۔ بعض ان تینوں میں سے کسی ایک جگہ اور بعض کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ زیادہ تر عورتیں کھیتوں، مویشی خانوں، کیاریوں میں کام کرنے، پہاڑیوں پرسے جلانے کے لئے لکڑی لانے، بچوں کی دیکھ بھال کرنے، کھانا پکانے، کپڑے دھونے، جھاڑو پونچھا کرنے کے بعد بھی "دن بھر کچھ نہ کرنے" کے طعنیسنتی تھیں۔
"آخر تم دن بھر کرتی کیا ہو"، ایک ایسا مکرر سوال تھا جو ہمارے گھروں اور خاندانوں میں روزانہ نہیں تو ہفتے میں ایک بار خواتین سے ضرور پوچھا جاتا تھا۔
اس ماحول میں پروان چڑھنے کے بعد بچپن سے ہی ہمارے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ عورتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں، وہ کام نہیں ہے۔ اصل کام تو مرد کرتے ہیں، پھر چاہے وہ دن بھر آوارہ گردی ہی کیوں نہ ہو!
میں نے کراچی میں پانچ سال "چھڑا لائف" گزارنے کے بعد اسلام آباد میں سات سال "نیم چھڑا" لائف گزارا، مگرمحکمہ کچن میں میری کارکردگی صفر تھی۔ کراچی میں چھوٹے بھائیوں نے مدد کی، اور اسلام آباد میں بھائیوں اور بہنوں نے۔ کچن میں میری اپنی ذاتی صلاحیت نوڈل پانی میں ڈال کر ابالنے اور چائے بنانیتک محدود تھی۔

نیو یارک شہروارد ہونے کے بعد ابتدا کے کچھ مہینے بیروزگاری کے تھے۔ اکا دکا کام مل جاتا تھا چند گھنٹوں، دنوں، کیلئے۔ باقی وقت ایک

مسلسل بیکاری۔ اس بیکاری کے عالم میں بھی لیکن گھر کے باورچی خانے میں ہاتھ بٹانا میری ترجیحات میں شامل نہ تھا۔ "یہ عورتوں کا کام ہے" والا نظریہ، میری تمام "عقلی، فکری و علمی دلیلوں" کے باوجود بھی کسی چور کی طرح خیال سینیما کے کونے کھدروں میں بیٹھے مجھے باروچی خانے سے دور رکھ رہا تھا۔ (اس کا احساس بعد میں ہوا)۔
بیوی بیچاری دفتر جاتی، وہاں سے آنے کے بعد کھانا بناتی، بچوں کو کھلاتی، برتن دھوتی تھی اور تین بچوں (بشمول اس کے جس کا دل اب بھی بچہ ہے) کے نخرے الگ سے برداشت کرتی تھی۔
میرے ذمے ایک کام تھا۔ بڑے بیٹے کو سکول لیجانا (20منٹ کی واک) اور دوپہر کو اسے واپس لانا۔ ایک روز معمول کے مطابق بیٹے کے ساتھ گھر پہ موجود تھا۔ کوئی مہمان بھی آیا ہوا تھا۔ بیوی دفتر سے واپس آئی، اور کچن میں چلی گئی۔ کچھ لمحوں کے بعد شکایت بھرے لہجے میں کہا، "آپ نے کچرہ بھی باہر نہیں پھینکا ہے اب تک۔ آتش فشاں پھٹ پڑا۔ میری مردانگی پر چوٹ پڑی تھی شائد۔ "میں کیوں لیجاوں؟ یہی کام رہ گیا ہے میرا؟"۔ وہ خاموش رہی (شائد اسلئے کہ گھر میں مہمان موجود تھا)۔ میں باروچی خانے سے نکل بیٹھک میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اپارٹمنٹ کا داخلی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ آواز سُن کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ بیوی کچرا کچن سے اُٹھائے چار منزلہ عمارت کے عقب میں موجود کچرے خانے تک لے گئی ہے۔
بیچاری ابھی دفتر سے آئی تھی، اور ابھی ہی کچرہ لئے چار منزل نیچے چلی گئی۔ اتنا کچھ تو کر رہی ہے ہم سب کے لئے۔ اگر میں کچرہ لیجاتا باہر تو کونسی قیامت آجاتی۔ ذہن میں سوالات گونجنے لگے۔ ندامت کے احساس نے شدت سے گھیر لیا۔
کافی دنوں، اور گفتگو کے مختلف ادوار، کے بعد گاوں میں گزارے بچپن کے دن اور ان سے جڑی یادیں اور احساسات یاد آگئے۔ خیال آیا کہ گاوں اور خاندان میں بھی تو یہی ہوتا ہے۔ دن بھر گھر میں کام کرنیوالی عورت کی مدد کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ہے۔ عورت کھیت میں آلو بھی اگارہی ہے، گندم کو پانی بھی دے رہی ہے، کیاریوں میں سبزیاں بھی اُگا رہی ہے۔ اور سب یہی توقع لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ عورت ہی تمام کام کرنے کے بعد گھر جاکر کھانا پکائے گی اور دیگر تمام امورِ خانہ داری سرانجام دے گی۔
ان حالات میں عورتوں پر جتنا دباو پڑتا ہے اور اس دباو کے جو اثرات پڑتے ہیں ان کی کئی مثالیں میں بہت قریب سے اپنے بچپن میں دیکھا چکا تھا۔ اور مجھے ان مثالوں سے ہمیشہ الجھن ہوتی تھی۔ اس سماجی مزاج کو بچپن میں پسند نہ کرنے کے باوجود بھی میں خود اسی سماجی ڈگر پر چل پڑا تھا۔ یادوں پر شائد وقت نے غبار ڈال دیا تھا!
لڑکپن میں ایک دن امی نے کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کا حکم دیا۔ میں نے تکمیل سے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر بعد امی خود کام نمٹا کر واپس آئی۔ میں یونہی بیٹھا ہواتھا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا، "دیکھ رہی تھی کہ فضول بیٹھے رہنے کے بعد تمہارے سر پر اب تک سینگ نکل آئے ہیں یا نہیں۔" امی کے کاٹ دار جملے نے مجھے پریشان کردیاتھاکچھ لمحوں کے لئے، لیکن ان کی طنزیہ مسکراہٹ نے ہنسا بھی دیا تھا۔
جانوروں کے سروں پر سینگ خوبصورتی اور رعب اور رتبے کی علامت ہوتے ہیں۔ مارخور کے سینگ ہی اس کی اصل شان ہیں۔ ورنہ مارخور اور دوسرے بکروں میں کوئی زیادہ فرق تو نہیں ہوتا! امی کے جملے میں موجود سر پر سینگ نکل آنے والے محاورے کا مقصد یہ تھا کہ فارغ بیٹھنے سے بندے کی عزت نہیں بڑھتی۔
میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ عورتوں سے ہماری توقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ہم اگر فکری اور عقلی، دلیلی، سطح پر ان کی مدد کرتے بھی ہیں تو امورِ خانہ داری کے عملی میدان میں آکر ارادی و غیر ارادی طور پر ہمارے ہاتھ پتھر اور پیر شل ہوجاتیہیں۔ اور اگر ہم گھر میں کچھ کام کرے بھی تو رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پوری امت پر احسان کر رہے ہیں

عورت مارچ کو گالیاں شوق سے دیں۔ گالیوں کی تربیت آپ کو نامور محقق، دانشور، لکھاری، فلسفی، ہدایتکار و تجزیہ نگار خلیل الرحمن قمر کی اقدار، تہذیب اور شائستگی بھری باتوں سیمفت مل سکتی ہے۔ عورت مارچ کے ہر جملے کے ساتھ آپ کا اور ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن یہ کہنا بھی غلطہ ہے کہ عورتوں کو اپنی زندگی پر اختیار نہیں ہونا چاہیے، اور انہیں اپنے حق میں بولنے، لکھنے، چیخنے اور چلانے کا حق نہیں ہے۔ ہم اور آپ، سب، جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں صنفی مساوات فکری سطح پر ہوں بھی تو عملی سطح پر صفر ہے۔
مارچ میں شامل ہونے کے لئے بیشک سڑکوں پر مت نکلیں۔ پوسٹرز بھی مت بنائیں۔ بینرز بھی مت بنائیں۔ لیکن اپنے، اپنے خاندانوں، اور اپنی سماج کے رویے پر غور کرنے کی کوشش میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔
یہاں آمد کے چند ماہ بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دھیرے دھیرے امورِ خانہ داری میں حصہ لوں گا۔ برتن دھونے سے شراکت کا آغازکیا۔ ہمت بڑھی تو چند کوششوں کے بعد کھانا پکانا بھی کسی حد تک سیکھ گیا۔ بچوں اور گھر کی صفائی میں بھی ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔
فارغ اوقات میں بعض دفعہ بے اختیاری کے عالم میں اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر دیکھتاہوں کہ سینگ تو نہیں نکل آئے ہیں، اور کبھی کبھار پیچھے ہاتھ پھیر کر بھی دیکھتا ہوں کہ کام کرنے کی وجہ سے دُم تو نہیں نکل آئی ہے!

آوارہ خیال (نیویارک، 4 مارچ 2020)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔