Friday, January 22, 2021

کھیت اور کھیل

 فصل اُٹھ جانے کے بعد گاوں کے خالی کھیت اور کھلیان کھیلوں کیمیدان بن جاتے تھے۔ گاوں میں مرکزی پولو گراونڈ (شوارن) موجود ہے مگر وہاں جانے کی بجائے محلوں میں ہی میدان سج جاتے تھے۔ فٹبال کے میچز کھیلے جارہے ہیں تو کسی طرف "لونڈس" کے معرکے سجائے جارہیہیں۔ کرکٹ کے مقابلے بھی مسلسل جاری رہتے تھے۔

ایک کھیل "جنگ" کا بھی کھیلا جاتاتھا۔ کھیتوں کی منڈیریاں اور دیوار مورچے بن جاتے تھے، اور زمین میں آلو زخیرہ کرنے کے لئے کھودے گئے گڑھے بطور خندق استعمال کئے جاتے تھے۔ متحارب گروہ عموماً محلوں کی بنیاد پر منظم ہوتے تھے۔ مثلاً قلعہ بمقابلہ لخش۔ مینگشی بمقابلہ لخش۔ ہم "خورد لخش" والے عموماً مینگشی محلے کی ٹیم کا حصہ بن جاتے تھے، کیونکہ ہم "اقلیتوں" میں شامل تھے۔


جنگ کے اس کھیل میں متحارب گروہ ایک دوسرے پر شولخیک (مٹی کے جمے ہوے تودے/دھیلے) پھنکتے تھے۔ چہرے اور سر پر مارنے کی ممانعت تھی۔ پیٹھ، ٹانگوں، اور پیٹ پر وار کرنا حلال سجمجھا جاتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار نشانہ خطا ہو کر چہرے اور سر پر بھی لگ جاتا تھا۔ اور اگر مٹی کے ان سخت دھیلوں کے بیچ میں کوئی پتھر آجائے تو پھر خون بہنا اور جسم کے مختلف حصوں کا سوجھنا بھی معمول میں شامل تھا۔ تاہم، زیادہ اوقات محض چہرے اور کپڑے میلے ہوجاتے تھے۔


بہتی ناکوں کے ساتھ سردی کے موسم میں منہ سے بھاپ نکالتے "فوجی" جوان ایک مورچے سے دوسرے مورچے تک جاتے ہوے ایک دوسرے پر "شولخیک" کی گولہ باری کرتے تھے۔ داد شجاعت دیتے۔ اور "قربانیاں" دیتے۔ "جنگ" کا اختتام بسا اوقات اصلی، دست بدست، لڑائی کی صورت میں ہوتا تھا!


کھلونوں کی کمی تھی۔ گاوں میں گنے چنے بچوں کے پاس ربڑ یا چمڑے کے فٹبال ہوتے تھے۔ جس کا فٹبال ہوتا تھا وہ ایک طرح کا لیڈر بن جاتا تھا۔ کپتان بھی وہی ہوتا، ریفری بھی وہی، اور جج و جلاد بھی وہی۔ فٹبال کے مالک کو ناراض کرنے کا مطلب ہوسکتا تھا کھیل سے محرومی، اسلئے مالک الفٹبال کی خوش آمد کرنا اور ان کے نازو نخرے اُٹھانا مروجہ روایات میں شامل تھا۔


کھلونے اور دیگر "نوادرات" ڈھونڈے کی خاطر ہم لوگ ایک ہوٹل کے کچرے کا رخ کا بھی عموما کرتے تھے۔ وہاں دیگر مال غنیمت کے ساتھ کبھی کبھار سگریٹ کا کوئی ایک آدھ دانہ بھی مل جاتا تھا، جسے چھپ چھپا کر "پینے" کی کامیاب کوشش کے بعد ہم نہال ہوجاتے تھے۔


میں عمر رسیدہ ہوں، اور نہ ہی زیادہ وقت گزرا ہے، مگر اب روایات یکسر بدل گئے ہیں۔ اب وہ گبندے اور گردآلود معصوم کھیل قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اب "کھیلوں" کے دیگر میدان سجائے جاتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔