Friday, December 02, 2016

غلامی کا خاتمہ کیسے ممکن ہو؟

پاکستان کے طول و عرض میں لاکھوں افراد جبری مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ساری زندگی زمینداروں کے کھیتوں میں ہل چلاتے اور لہلاتی فصلیں اگاتے ہوے فاقوں کا شکار ہو کر مرجاتے ہیں۔ ان کو جسمانی مشقت کے عوض معاوضہ نہیں ملتا۔ "ونڈی" سسٹم کے تحت ان کو فصل کا ایک چوتھائی، یا بعض حالات میں نصف، حصہ دیا جاتا ہے۔ فصل خراب ہو تو ان کو کچھ نہیں ملتا۔ زمیندار ان کو زندہ رکھ کر ان سے اپنے کھیتوں میں کام کرواتا ہے۔ ان کی علاج کی کسی کو پرواہ ہوتی ہے، نہ ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت کی۔ ان کی بیویاں، بچیاں اور ان کی ماوں کا زمیندار یا ان کے حواری جنسی ہوس کا شکار بناتے ہیں۔ ان کو پیسوں کی ضرورت پڑے تو زمیندار کے پاس جا کر قرض لیتے ہیں، اور اس قرض کے عوض خود کو، اپنی خودی کو اور اپنے خاندان  کو گروی رکھتے ہیں۔  یہ عمل غلامی کی ایک قسم ہے۔ 

زمینوں پر کام کرنے والوں کی طرح ہزاروں افراد اینٹوں کے بھٹوں اور کارخانوں میں چند ہزار رقم قرض لینے کے بعد مشقت کرتے کرتے نسلیں گنوا بیٹھتے ہیں اورگردوغبار اوردھویں میں کھانستے کھانستے مر جاتے ہیں۔ 
ریاست ان بااثر لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی،کیونکہ ریاست کے قوانین بنانے والے یہ خود ہیں، اور بنائے ہوے قوانین پر عملدرآمد کروانے والے ان بااثر زمینداروں کی جیبوں میں یاپھر ان کی قدموں کے نیچے رہتے ہیں ۔ 
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے آئی ایل کے مطابق جبری مشقت کے شکار اور مزدور بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ ایک انتہائی شرمناک صورت حال ہے۔ لیکن ان حالات میں بہتری کی کوئی خاص امید نہیں ہے، کیونکہ ہمارے قانون ساز اداروں میں زیادہ تر افراد اسی استحصالی نظام سے وابستہ ہیں۔ ظلم اور استحصال کا یہ نظام نہیں رہے گا تو ان کی وقعت بھی ختم ہوجائےگی۔ 

ملک کے ایوانوں اور انتخابی جلسوں میں جمہوریت اور انسانیت کا راگ الاپنے والے یہ افراد اپنی زمینوں اور جاگیروں میں فرعون کی طرح خدائی کرتے ہیں۔ جب تک ان ہاریوں، مزدوروں اور بیگار پر کام کرنے والے لوگوں ک منظم نہیں کیا جاتا اور ان کو شعور، علم اور ہنر سے آراستہ نہیں کیا جاتا، یہ خونی نظام اسی طرح قائم و دائم رہے گا۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔