Wednesday, January 20, 2016

ٹیکسی کہانی (اولاد)

راستے میں ایک نوجوان دونوں ٹانگیں پچھلی سیٹ پر رکھ کر بائیک اُڑا رہا تھا۔ جی۔ رفتار سے تو یہی معلوم ہوتا تھا۔ ٹیکسی والے نے دیکھ کر ایک موٹی سی گالی دی، اور کہا کہ اگریہ حرامزادہ گاڑی کے نیچے آگیا تو مفت میں ہم لوگ بھی پھنس جائیں گے۔ ٹیکسی کی رفتار سست ہوئی، بائیک والا لہراتا ہوا غائب ہوگیا۔
"کتوں کی طرح مرتے ہیں یہ گرنے کے بعد۔ سر پھٹ کر دماغ باہر آجاتاہے۔ خبریں یہ روز پڑھتے اور سنتے ہیں، لیکن باز نہیں آتے"، عمررسیدہ ڈرائیور غصے میں تھا۔
"ان لوگوں کو اپنے والدین اور گھر والوں کی تکلیف کا بھی احساس نہیں ہوتا ہے"، میں نے حیرت سے کہا۔
"والدین کا کون سوچتا ہے جی۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ کوئی نہیں سنتا بیچارے والدین کی۔"
"ہمیں لگتا تھا کہ پڑھ لکھ کر نوجوان اچھے ہو جائیں گے، لیکن یہ تو بہت خودسر اور بیوقوف بنتے جارہے ہیں"، چچا بڑبڑایا۔
"اسکی وجہ یہ ہے جناب، کہ بچوں کو والدین کے ساتھ وقت گزارنا نصیب نہیں ہوتا۔ چھوٹی سی عمر میں ان کو سکول بھیج دیا جاتاہے۔ وہاں سے آکر یہ ٹی وی پر کارٹون دیکھتے ہوے دن گزارتے ہیں۔ ان کی تربیت کیسے ہوگی؟"، چچا نے خودکلامی کے انداز میں اونچی آواز میں کہا۔
"سکول والوں کو پڑھانے کے علاوہ ہر کام آتا ہے۔ صرف پڑھانا نہیں آتا۔ ہر روز کسی نہ کسی پروگرام میں بچوں کو الجھائے رکھتے ہیں۔ کردار سازی اور تربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔کیسے تربیت ہوگی ان کی؟"
میں نے تائید میں سرہلایا۔
"سکول والوں کا کام تو بس یہی رہ گیا ہے کہ پیسے بٹورتے رہے۔ ابھی دیکھئیں، میرا ایک پوتا ہے، ساتویں جماعت میں۔ پچھلے دنوں گھر آیا اور کہتا ہے کہ امریکہ لے جارہے ہیں سکول والے ایک ہفتے کے لئے۔ تین لاکھ روپے چاہیے ۔"
"تین لاکھ"، ہلکے سے وقفے کے بعد ڈرائیور چچا نے دہرایا۔
"کہاں سے لائیں؟ ٹیکسی چلانے والے اور چھوٹے موٹے کام کرنے والے کہاں سے لاکھوں لائیں؟ کیوں جی، غلط کہہ رہا ہوں میں؟"، انہوں نے مجھ سے پوچھا۔
"جی۔ تین لاکھ تو کافی بڑی رقم ہوتی ہے۔ کتنے عرصے کے لئے جارہا تھا آپ کا پوتا؟"، میں نے پوچھا۔
"ایک ہفتے کے لئے جی۔ تین دن تو سفر میں گزر جائیں گے۔ تو چار دن کے لئے کوئی پاگل کا بچہ ہے جو تین لاکھ دے کر امریکہ جائے؟"
"بس ان سکول والوں کو صرف پیسے بنانے آتے ہیں۔ اونچے اونچے خواب دکھاتے ہیں، لیکن مقصد محض پیسہ بنانا ہوتاہے۔"
"خاک تربیت ہوگی بچوں کی؟ وہ بھی ساری زندگی کچھ نہیں سیکھتے ہیں۔ بلکہ گھر کے اصول اور مذہب کی تعلیمات بھی بھول جاتے ہیں"، یہ کہہ کر چچا خاموش ہو گیا۔
میں نے بھی جیب سے موبائل نکال کر غروب آفتاب کی تصویر کو غور سے دیکھنا شروع کردیا،  جو میں نے دس پندرہ منٹ پہلے ہی لی تھی۔

ڈوبتا سورج آج کچھ زیادہ ہی غمناک اور خون رنگ لگ رہا تھا۔ شائد باچا خان یونیورسٹی پر حملے اور قتل عام کی وجہ سے آسمان بھی افسردہ ہو گیا تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔