Sunday, October 11, 2015

زرد پتوں کا موسم اور ایک جوان لاش

زرد پتوں کے حسین دیس میں جہاں اب خزاں کاموسم عروج پر ہے ۔۔۔ جہاں درختوں کے سرخ پتے اپنی خوبصورتی کی حدت سے گویا وادی میں آگ لگا دیتے ہیں۔۔۔۔ ان خوبصورت پہاڑوں کے درمیان ۔۔۔۔۔۔ ایک اور شعلہ گُل ہو گیا۔ ایک اور چراغ بجھ گیا۔ ایک اور خاندان ماتم کناں ہے۔

خزاں کی سرد دھوپ میں ایک کھیت کے کنارے پر گاوں کے بہت سارے افراد چھوٹے چھوٹے گروہوں میں سر جوڑے بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ اس خوبصور ت وادی میں ، ان خوبصورت ، دلکش اور جاذبِ نظر نظاروں کے درمیان آخر کیا وجہ ہے کہ ایک اور نوجوان کی درخت سے لٹکی لاش ملی ہے؟ اس جنت کے کچھ کم عمر مکین خودکشی پر کیوں اُتر آئے ہیں؟

ابھی ایک ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے کہ گلمت سے تھوڑی دور پرے چین کی طرف واقع پھسو نامی گاوں میں ایک نوجوان کی لاش درخت سے لٹکتی ملی تھی۔ پھر اسی گاوں میں چند مہینوں بعد ایک اور نوجوان کی درخت سے لٹکتی لاش ملی۔ اور اب گلمت گاوں کے ایک محلے میں ایک نوجوان کی درخت سے لٹکی ہوئی لاش ملی ہے۔ یہ معمہ کیا ہے؟ آخر کیوں اس جنت نظیر وادی میں کچھ نوجوان زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں؟ 

یہ سوال دنیا بھر میں پوچھاجارہا ہے، اور ماہرین اس پر تحقیق بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے سائنس ابھی تک خودکشی کی کسی ایک وجہ پر متفق نہیں ہوسکا ہے۔ خودکشی کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایک چیز خودکشی کرنے والوں کی بڑی تعداد میں مشترک ہوتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انہیں کسی نہ کسی وجہ سے سخت مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں مایوسی سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ نظر نہیں آتا ہے۔اُنہیں کسی نہ کسی شکل میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یا تو ان کو پکارنے کے بعد مدد ملتی نہیں ہے، یا پھر یہ مدد کے لئے کسی کو پکارتے بھی نہیں ہے، کیونکہ انہیں اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے، یا پھر یہ کہ ا ن میں کسی کو مدد کیلئے پکارنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ 

کچھ کہتے ہیں کہ نوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان عمر کا فرق ہے۔ سوچ میں فرق ہے۔ ترجیحات الگ ہیں۔ اور اسی وجہ سے سماجی ، ذہنی اور فکری تناو ہے۔ تناو گہرا ہوتا ہے ، امید دم توڑ دیتی ہے، اور کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا، تو نوجوان مایوسی کے عالم میں آگے بڑھ کر موت کو گلے لگاتے ہیں ۔

دوسروں کا ماننا ہے کہ مقابلے کے اس معاشرے میں سب کو اول نمبر پر جانے کی جلدی ہے۔ کسی بھی طرح سے لوگ سب سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ اور اگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکے تو گھر کے اندر، گھر کے باہر، لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لعن طعن اور تعفن کی فضا میں نوجوانوں کے ذہنوں میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے ، اور اس اندھیرے سے باہر نکلنے کا راستہ ان کے نزدیک زندگی کی قیود توڑنے کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔ 

ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہوجاتی ہے، اور اس غلطی کے احساس تلے وہ اپنی جان لینے پر تُل جاتا ہے۔ بہت ساروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ معاشی، سماجی اور ذاتی چیلینجز جب حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو نتیجہ خود کشی کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ 

کچھ اور شکایت کرتے ہیں کہ نوجوانوں میں اپنے جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ نجی اور خاندانی رشتوں میں ہلکی پھلکی یا بڑی ناکامی اور مایوسی بھی ان کو شدید ردِ عمل پر مجبور کردیتی ہے۔

وجہ جو بھی ہو، یہ حقیقت ہے کہ وہ نوجوان جن سے ان کے گھر والوں کی، خاندان والوں کی اور پورے معاشرے کی توقعات وابستہ ہوتی ہیں، اگر خود کو اچانک اس طرح موت کے حوالے کردیں تواجتماعی سطح پر بہت شدید قسم کی مایوسی جنم لیتی ہے۔ وریہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے وادی گوجال کے مکین انتہائی مایوسی کا شکار ہیں، کیونکہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے نوجوان موت کے گھاٹ اُتر رہے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ پچھلے دو سالوں میں بہت سارے اداروں نے نوجوانوں کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مذہبی سکالرز اور ماہرینِ نفسیات کے ساتھ مل کر اس گُتھی کو سلجھانے کی کوشش ہو رہی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کوششیں کافی نہیں ہیں۔ کیونکہ اموات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ 

میری صلاح یہ ہے کہ اس معاملے کو مزید سنجیدگی کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر سلجھانے کی کوشش کی جائے۔ نوجوانوں کے مسائل جاننے، اور ان کو عملی طور پر مدد دینے کے ایسے ادارے اور میکینیزم تیار کئے جائیں جن سے امید کی کرن پیدا ہو، اورمسائل کے گرداب میں پھنسے نوجوانوں کو مستقبل تاریک نہیں، بلکہ روشن نظر آئے۔ 


نوجوانوں سے میری استدعا یہ ہے کہ زندگی میں آئیڈیلیزم (کاملیت پسندی) کا شکارہونے کی بجائے عملیت پسندی اور جرات مندی کے ساتھ مشکلات سے لڑنے اوربہادری سے ان کا مقابلہ کرنے کی روش اپنائیں۔ کوئی موت کو گلے لگانا مسائل سے فرار ہونے کے مترادف ہے۔ اور اسے بہادری کسی بھی صورت میں نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ شکست خوردگی کی علامت ہے۔ نوجوانوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ زندگی میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہونے والے افراد، سب سے زیادہ بار ناکام ہونے کے باوجود ہمت نہ ہارنے والے افراد، نے دنیا کو بدلا ہے۔ آپ کسی بھی بڑی ہستی کی مثال لیجئے۔ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک طویل ،مسلسل اور مشقت بھری کوشش ہوتی ہے۔ وقتی مایوسیوں اور ناکامیوں کی وجہ سے خودکو مستقبل کی روشنی سے محروم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ 


ایک اور صلاح یہ ہے کہ اگر آپ اپنے دل کی بات کسی اور سے بیان نہیں کرپاتے ہیں، اگر جذبات ، خوف، اور احساسات کا الاو اندر ہی اندر جلتا رہتا ہے، اور کوئی اسے دیکھ نہیں پاتا ہے، یا سن نہیں پاتا ہے، یا دیکھنا چاہتا نہیں ہے، تو کاغذ قلم پکڑلیجئے اور لکھنا شروع کیجئے۔ کچھ بھی لکھیں۔ اپنے احساسات، اپنی خیالات اور اپنے جذبات کا اظہار لفظوں کے ذریعے کیجئے۔ ذہنی دباو ختم ہوجائے گا۔ بہت آسانی ہو گی۔


آخری بات یہ ہے کہ خودکشی کی وجہ سے ہونے والی ہر موت کے پیچھے کسی نہ کسی شکل میں بہت سارے افراد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہمیں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کامیابیوں کو سراہنا غلط نہیں ہے، لیکن ناکامیوں کی وجہ سے لوگوں کو حقیر سمجھنے ، الزام تراشی کرنے، طنز کا شکار بنانے اور ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے سے ہمیں باز آجاناچاہیے۔ اگر ہم اپنے کسی رشتہ دار یا عزیز دوست کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی حتی الامکان مدد کرناہمارا فرض ہے۔ اور اگر ہم مالی مدد کرنے کے قابل نہیں ہیں تو کم از کم اتنا ہمیں ضرور کرنا چاہیے کہ ان کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کریں اورانہیں اُمید دلانے کی کوشش کرے ۔ یہ نہ ہو کہ اگلا پہلے سے پریشان ہو اور ہم ان کی پریشانی میں مزید اضافہ کر کے انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیں، اور پھر بعد میں زندگی بھر کفِ افسوس ملتے رہے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔