Friday, June 13, 2014

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا

اپنے پیغامات، خیالات اور احساسات دوسروں تک پہنچانا انسانی ضرورت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اس ضرورت اور کمزوری کو پورا کرنے کے لئے انسان نے تاریخی طور پر آواز، الفاظ اور تصویروں کے ساتھ ساتھ فن تعمیر کو بھی استعمال کیا ہے۔ عمارتوں میں خاص معنی رکھنے والے علامات کا استعمال اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ 


وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، جیسے جیسے انسانی آبادی بڑھتی گئی اور تجارت اور سیاحت کی غرض سے لوگ دنیا کے مختلف کونوں تک پھیلنے لگے، تیز تر ذرائع ابلاغ کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی۔ سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں پر سوار پیغام رساں ہو، پیادہ ہرکارے ہوں ، یا پھر تربیت یافتہ کبوتر، سب نے دور افتادہ مقامات تک پیغام پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا۔ پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا تو خیالات ، پیغامات اور احساسات کی ترسیل کتابوں اور رسائل کے ذریعے ہونے لگی۔ پھر انسان نے برقی شعاعوں کو گرفتار کیا اور ٹیلی گرام اور ٹیلی فون کے ذریعے پیغام رسانی، گفتگو اور رابطے کی سہولیات پیدا کی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویزن کا دور آگیا ، جس نے آواز، الفاظ اور متحرک تصویروں کے ذریعے خیالات اور احساسات کی ترسیل کو ممکن بنایا۔ پیادہ ہرکاروں سے ٹیلی ویزن اور وائرلیس (بغیر تار کے) ٹیلیفون کے ذریعے پیغامات بھیجنے کے قابل ہونے تک نسل انسانی کو ہزاروں سال لگے۔ 

بیسویں صدی کے آخری عشروں میں امریکہ کے چند محققین اور سائنسدانوں نے پیغام رسانی کے لیے ایک نیا ذریعہ ایجاد کیا۔ اسے انٹرنیٹ کا نام دیا گیا ، کیونکہ یہ مختلف کمپیوٹرز کے باہمی ربط سے وجود میں آنے والا نیٹ ورک تھا۔ ابلاغ کے اس نظام کے ذریعے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ معلومات، پیغامات اور احساسات کی ترسیل ممکن ہوسکی۔ چند ہی سالوں میں انٹرنیٹ کو حکومتی دفاتر سے نکال کر منڈیوں اور درسگاہوں تک پھیلایا گیا۔ صارفین کی تعداد بڑھتی گئی۔ کمپیوٹر کا مالک ہر شخص ، یا پھر کمپیوٹر تک رسائی رکھنے والا ہر فرد دھیرے دھیرے انٹرنیٹ سے ایک تار کے ذریعے منسلک ہونے لگا۔ لوگوں کے درمیان برقی خطوط کا تبادلہ ہونے لگا۔ برق رفتار الیکٹرانک میل (ای میل) نے وقت اور جغرافیائی حدود کو بے معنی کردیا۔ مہینوں اور ہفتوں میں مکمل ہونے پیغام رسانی کا عمل ایک جست ، ایک لمحے ، میں طے ہو نے لگا۔ لیکن انسان اس آسانی پر بھی خوش نہ تھا۔ کچھ محققین کو ایسا لگ رہا تھا کہ صرف ای میل سے کام نہیں نہیں چلے گا، کیونکہ ای میل کے ذریعے آواز کا فوری تبادلہ ممکن نہیں ہے، اور متحرک تصویروں (ویڈیوز) کا فوری تبادلہ بھی نہیں ہو پارہاتھا۔ 

انٹرنیٹ کی تجدید ہوتی رہی۔ برقی شعاعوں کو مضبوط تر بنانے کا عمل جاری و ساری رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھاری برقی مواد کا انٹرنیٹ کے ذریعے تبادلہ ممکن ہونے لگا۔ آواز اور ویڈیوز کے ذریعے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے زیادہ بامعنی ، پر تاثیر اور حقیقی انداز میں مسنلک ہونے لگے۔ ان رابطوں کے ذریعے انٹرنیٹ میڈیا (سوشل میڈیا) کا وجود عمل میں آیا جو بہت سارے حوالوں سے روایتی میڈیا سے بہتر ہے۔ جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انٹرنیٹ پر موجود سوشل نیٹ ورکس سے منسلک ہونے لگے تو اسے ذاتی رابطوں کے علاہ خبرنگاری اور خبر کی ابلاغ کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی طرح کا ایک منفرد اور متبادل میڈیا وجود میں آیا۔ 


انٹرنیٹ میڈیا کی ایک خوبی یہ ہے یہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی نسبت بہت سستا ہے۔ اس میڈیا پر خبر چلانے کے لیے بہت زیادہ اسباب اور افرادی قوت کی ضرورت نہیں، اور اسکی رسائی پرنٹ میڈیا کی نسبت زیادہ ہے۔ اسکے علاوہ،سوشل میڈیا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں تحریری مواد، آواز اور ویڈیوز کے علاوہ ساکت تصویروں کو ایک ساتھ استعمال کیا جاسکتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبا سارے اخبار اور ٹی وی چینلز بھی لوگوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ 

سیٹیزن جرنلزم 
سوشل میڈیا کے پھیلاو سے عام شہری اپنے علاقے کی خبریں پوری دنیا تک پہنچانے کے قابل بن چکے ہیں۔ اسکے لیے ضروری ہے کہ ان کی انٹرنیٹ تک رسائی ہو اوروہ ساکت اور متحرک تصویروں (ویڈیوز) اور ریکارڈ شدہ آواز یا تحریر ی مواد کا بہتر استعمال جانتے ہوں۔ سوشل میڈیا پر متحرک عام شہری صحافیوں کو سیٹیزن جرنلسٹ کہا جاتا ہے اور اس وقت پوری دنیا میں لاکھوں عام شہری مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نہ صرف اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کی تفاصیل بیان کر رہے ہیں بلکہ جاندار تجزئیے بھی پیش کر رہے ہیں ۔ کارپوریٹ (تجارتی) مفادات کے شکار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں سوشل میڈیا اور شہری صحافی ایک ایسے متبادل میڈیا کی تشکیل کر رہے ہیں جس سے عام لوگوں کے مسائل اور انکے خیالات اور احساسات تک قارئین کی رسائی ممکن ہو پارہی ہے۔ ایسی خبریں جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بوجوہ جگہ حاصل نہیں کرپاتے ، انہیں سوشل میڈیا میں پذیرائی حاصل ہوپارہی ہے۔ 

بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اہم نوعیت کی خبریں پہلے سوشل میڈیا پر آجاتی ہیں اور یہاں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے عامل صحافی خبریں اٹھا کر اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچاتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے عام شہریوں کو خبریں بنانے اور لوگوں تک پہنچانے کے بہترین مواقع فراہم کیے ہیں، لیکن خبر نگاری کی فن میں مہارت نہ رکھنے کی وجہ سے عام شہریوں کی صلاحیتوں سے بہتر فائدہ نہیں اُٹھایا جا پارہا ہے۔ اسی لیے عام شہریوں کو خبرنگاری کی مناسب تربیت دے کے ا ن کے کام میں بہتری پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ 

انٹرنیٹ اور موبائل فون 
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں موبائل فون کے صارفین کی تعداد پانچ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ۲۱ (بارہ) کروڑ سے بڑھ چکی ہے اور اس میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ غالبا اسی لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے فروغ کے لئے کام کرنے والے ادارے ایسی ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے مسلسل کوشاں ہیں جس سے موبائل فون پر ہی صارفین کو انٹرنیٹ میسر ہوسکے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی تک رسائی اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ آنے والے مہینوں اور سالوں میں موبائل فون کے صارفین تیز رفتار انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا سے منسلک رہ سکیں گے ۔ گلگت بلتستان میں بھی موبائل فون کے صارفین کی تعداد انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ارض شمال کے دور دراز اور دور افتادہ علاقوں میں جہاں لوگ ابھی تک انٹرنیٹ سے محروم ہیں وہاں موبائل فون کمپنیز نے نہ صرف اپنے ٹاورز لگائے ہیں بلکہ صارفین کو مواصلات کے بہترین خدمات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ ان خدمات کے معیار میں بتدریج اضافے کا امکان بھی موجود ہے۔ 

گلگت بلتستان میں سوشل میڈیا کا پھیلاو 
پاکستان کے دوسرے حصوں کی نسبت گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا پھیلاو اتنا زیادہ نہیں ہے۔ اسکی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے جغرافیائی لحاظ سے ملک کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ پر ایک نیم سرکاری ادارے کی اجارہ داری قائم ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں کام کرنے والے نجی اداروں کو اگر گلگت بلتستان میں بھی انٹرنیٹ فراہم کرنے کی اجازت دی جائے تو ہمارے علاقے میں بھی اس انتہائی اہم ٹیکنالوجی کا فروغ ممکن ہو سکے گا۔ تاہم ، تمام تر مسائل کے باوجود گلگت بلتستان کے نوجوان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنے علاقے کی بہترین ترجمانی کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام اخبارات انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، جبکہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سوشل میڈیا پر بھی متحرک ہے۔ اسکے علاوہ ایک تحقیق کے مطابق سنہ ۲۰۰۵ سے گلگت بلتستان کے کچھ نوجوان بلاگز اور دوسرے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے علاقے کے سماجی، سیاسی اور آئینی مسائل اجاگرکرنے کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے لئے بھی کوشاں ہیں۔


سوشل میڈیا کے سماجی اثرات 
سوشل میڈیا کے پھیلاو سے جہاں ایک طرف بہت ساری آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، لوگوں کو اپنے کاروبار کی تشہیر کرنے ، اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے اور ان کی آراء سننے کے بہترین مواقع ملے ہیں، وہاں دوسری طرف اسکے مضر سماجی اثرات بھی ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ دوسرے تمام آلات کی طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بہتر یا پھر بد تر استعمال صارف کی صوابدید پر ہے۔ بہتر استعمال کیا جائے تو انٹرنیٹ اپنے گہرائی اور وسعتوں میں علم کے خزینے پنہاں رکھتا ہے، لیکن اگر اسکا منفی استعمال کرنا چاہے تو ذہنی اور فکری تباہی کا سارا سامان بھی اسی انٹرنیٹ پر میسر ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے ، بشمول گلگت بلتستان ، میں انٹرنیت اور سوشل میڈیا کا منفی استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ مذہبی منافرت پھیلانے والے فیس بک ، ٹویٹر اور موبائل فون کے مربوط اور متحرک نیٹ ورک چلار ہے ہیں جن سے اپنے مخالفین کی نہ صرف کردار کشی کی جارہی ہے بلکہ بسا اوقات لوگوں کو تشدد پر بھی اکسایا جارہاہے۔ اسی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو ہم لوگوں نے افواہیں اور گمراہ کن خبریں پھیلانے کا ایک موثر ذریعہ بھی بنا ڈالاہے۔ تشویش کی بات یہ ہے نفرت انگیز مواد شائع کرنے والے افراد اور ا د اروں کو روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف قوانین بنانے کی ضرورت ہے بلکہ سکولوں اور درسگاہوں اور گھروں میں نوجوانوں کی بہتر  کر چکی ہیں۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔