Monday, April 01, 2013

ساغر صدیقی کی یاد میں

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں

میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

آو، اک سجدہ کرے عالم مدہوشی میں 
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
--------------------

کہا جاتا ہے کہ یہ تصویر ساغر صدیقی کی ہے۔ جی ہاں۔ ساغر صدیقی، جسکا اصلی نام محمد اختر تھا، جو انبالہ (ہندوستان) میں 1927 میں پیدا ہوا تھا، اور جس نے لاہور کی ایک گلی میں سال 1974 میں اس بے بسی سے جان دیدی کہ کسی کو پتا بھی نہ چلا۔

کہتے ہیں کہ صبح جب خاکروب گلی میں آیا تو اسے ساغر صدیقی کی لاش ملی۔ 

کچھ لوگوں کا ماننا ہے ساغر صدیقی کو ہیروئین کا نشہ لگ گیا تھا۔ دوستوں اور احباب نے جب قرض دینا بند کر دیا تو اس نے اپنی نظمیں اور غزلیں بیچ کر پیسہ کمانا شروع کردیا۔

ان پیسوں سے ہیروئین اور دوسرے نشہ آور اشیا خرید کر ساغر صدیقی عالم مدہوشی میں چلا جاتا تھا۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ساغر نے اپنی سینکڑوں نظمیں اور غزلیں جلا ڈالی کیونکہ سردیوں میں اسے اپنے تن کو ڈھانپنے کے لئے مناسب کپڑے میسر نہیں تھے۔

اس عظیم شاعر نے پاکستانی اردو فلموں کے لیے سینکڑوں مقبول گیت لکھے، جو آج بھی بہت مشہور ہیں۔  اس دیوانے شاعر نے کہا تھا: 

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سوجاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں 

دور تک کوئی ستارہ ، نہ کوئی جگنو ہے
مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔