Friday, February 08, 2013

گلگت بلتستان میں ٹیکس کا نفاذ اور حکومت کی معاشی بدحالی



بظاہر گلگت بلتستان حکومت نے مالی بحران کی وجہ سےپیدا ہونے والی مشکلات کو مریضوں اور ملازمین پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی لئے تو اچانک گلگت بلتستان کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتیاں شروع کردی گئی ہیں اورسرکاری ہسپتالوں میں فیسیں لاگو کردی گئیں ہیں یا کی جارہی ہے۔ 

اطلاعات اس طرح کی ہیں کہ اچانک سے سرکاری ملازمین کے تنخواہوں سے ٹیکس کی مد میں پیسے کاٹ گئے ہیں اور بعض کیسز میں تو غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایسے افراد کو بھی "ٹیکس جال" میں سمیٹا گیا ہے کہ جن کی ماہانہ آمدنی تیس ہزار سے بھی کم ہے۔

اسی طرح ، پچھلے تین چار دنوں سے ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ حکومت گلگت بلتستان نے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں سے 15 روپے پرچی فیس، 100 روپے ڈاکٹرز کی معائنہ فیس، 150 روپے ایکسرے فیس اور 200 روپے الٹراساونڈ فیس کے طور پر لینے کی تیاری مکمل کی ہے اور رواں ماہ کی 15 تاریخ سے اس پر عملدرآمد شروع ہو جائیگی۔ یاد رہے کہ اب تک سرکاری ہسپتالوں میں یہ سہولیات مفت میں یا بہت کم قیمت پر میسر تھیں۔ گلگت بلتستان کونسل کے رکن، ایڈوکیٹ امجد حسین فیس بک پر اس خبر کو بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔ 

فیس وصولی یا قیمت میں بڑھوتری کے اس فیصلے پر تنقید کرنا آسان ہے، لیکن مستقل آمدنی کی سہولت سے محروم گلگت بلتستان حکومت کی معاشی بدحالی کے پیش نظر اس غیر مقبول فیصلے یا تجویز کے محرکات قابل غور ضرور ہیں۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ آئینی اور قانونی پیچیدگیوں اور ٹھوس انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے گلگت بلتستان کا علاقہ، جسکی آبادی تقریبا بیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے، ڈوگرہ (کشمیری) راج سے 1948 میں آزادی کے بعد اب تک براہ راست ٹیکس سے مثتثنی رہا ہے۔ ماضی میں ایک یا دو دفعہ ٹیکس نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن عوام، کاروباری گروہوں اور سیاسی جماعتوں کی شدید ردعمل کے باعث ٹیکس نفاذ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ 

ٹیکس نفاذ کی مخالفت اس لئے کی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اور ان کے منتخب نمائندے آئین کی رو سے پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بننے کے اہل نہیں ہیں۔ اور اس "نااہلی" کی وجہ انکی کوئی ذاتی کمزوری نہیں، بلکہ پاکستان کا آئین ہے جس میں ابھی تک گلگت بلتستان کے علاقے کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اسلئے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نمائندگی دیے بغیر علاقے سے ٹیکس حاصل کرنا غیر آئینی، غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ 

میں ذاتی طور پر آئینی اور قانونی پیچیدگیوں سے بہت حد تک آگاہ ہونے کے باوجود ٹیکس نفاذ کا مخالف نہیں ہوں کیوں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت انتہائی کمزور ہے اور اسکا اسلام آباد پر انحصار کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے اسمبلی کی فیصلہ سازی کی قوت ختم ہوکو رہ گئی ہے۔ اگر ہمارے منتخب نمائندے ہر دفعہ کشکول لے کر اسلام آباد جائیں گے تو پھر فیصلے بھی اسلام آباد والوں کی مرضی کےہونگے، پالیسیز بھی ان کی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر بنیں گیں اور انحصار اور بیچارگی کا یہ عمل ہمیشہ جاری و ساری رہے گا اور "سیلف رول" کا خواب بھی ادھورا رہے گا۔

مالی وسائل پیدا کرنے اور اسلام آباد پر مالی و معاشی انحصار کم کرنے کے لئے اس علاقے کے وسائل کا درست استعمال ناگزیر ہے۔ اگر حکومت پاکستان اس علاقے سے ملنے والے وسائل یہی پر خرچ کرے تو بہت سارے مسائل کا سدباب ہو سکتاہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔ آبی وسائل سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے، سیاحت کے فروغ کے لئے کام کیا جاسکتاہے اور چین کے ساتھ تجارت کو فروغ دے کر اس علاقے کو دانشمندی اور قدرتی ماحول کی دیرپا پاکیزگی کو یقینی بناتے ہوے ایک صنعتی زون میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔ الغرض، اگر کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ گلگت بلتستان کا خطہ اپنے وسائل کے بل بوتے پر خود کفیل ہوسکے۔ 

دوسرا مسلہ، جسکی وجہ سے گلگت بلتستان مالی بحران کا شکار ہے، میرے نزدیک انتظامی نوعیت کاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بدانتظامی، کرپشن اور اقرباپروری کے ذریعے گلگت بلتستان کو میسر بجٹ کو ضائع کیا جا رہاہے۔ روزگار فراہم کرنے کے نام پر ملازمتوں کی بندربانٹ ہو رہی ہے اور مختلف محکموں اور وزارتوں میں ایک ہی اسامی پر درجنوں افراد کی تعنیاتی کی جاتی ہے جسکی وجہ سے حکومت کے زیادہ تر وسائل تنخواہوں کی ادائیگی کی نذر ہوجاتاہے۔ اس طرح کے غیر قانونی کاموں سےکچھ افراد کو ضرور فائدہ ہوتا ہے لیکن معاشرے کے کمزور ترین افراد کو ضروری خدمات، مثلا صحت، پانی، خوراک، تعلیم وغیرہ، کے لئے وسائل کم پڑجاتے ہیں۔ 

اسی طرح، وزیروں، اراکین اسمبلی، مشیروں اور بیوروکریٹس کے ذاتی اور غیر ضروری محکمہ جاتی اخراجات پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتےہیں۔ ایک انتہائی ذمہ دار شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے دسمبر 2012 میں بتایا کہ اراکین اسمبلی اور مختلف بیوروکریٹس اور ان کے محکموں نے 2012 کے دوران گلگت میں صرف ایک ہوٹل کو تقریبا دو کروڑ روپے ادا کئے، یا کرنے تھے۔ اگر تنخواہوں، گاڑیوں اور دوسرے تعیشات کا خرچ نکالا جائے تو معلوم ہوگاکہ قوم کے غریبوں کے نام پر لائی جانے والی رقم کا ایک خطیر حصہ بدانتظامی اور بے احتیاطی کی وجہ سے ضائع کیا جارہاہے۔ 

بجٹ کا ایک انہتائی بڑا حصہ امن و امان کے قیام کے نام پر خرچ توکیا جاتاہے لیکن معاشرے میں امن اور سکون کا شدید فقدان ہے۔ اگر سنجیدہ کوششیں کی جائے اور انصاف کی فراہمی یقینی بنایا جائے تو امن و امان پر خرچ ہونے والا ایک ارب کے قریب روپیہ فلاح کے کاموں میں لگایا جاسکتا ہے۔ 

یہ اخراجات اس طرح کے ہیں کہ ان پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے اور یہی رقم صحت اور تعلیم کی فراہمی کے لئے مختص کیا جاسکتاہے۔ لیکن، بدقسمتی سے، ایسے کام کرنے کے لئے جس وسعت نظری و قلبی اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے، کہ ہماری قیادت اس سے عاری ہے۔ 

ٹیکس کے مخالفین آئینی، نظریاتی اور قانونی نکات اٹھانے کے علاوہ یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ غریب لوگوں سے ٹیکس اور دوسرے مد میں رقم تو وصول کی جائیگی لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ رقم لوگوں کے فلاح پر خرچ کی جائیگی۔ اور اگر حکمرانوں کے چال چلن اور انکے شاہانہ مزاج دیکھے جائے تو یہ خدشہ کچھ اتنا غلط بھی معلوم نہیں ہوتا۔ 

اگر علاقے میں ٹیکس کا نفاذ ناگیزر ہے تو پاکستان کی ریاست اور حکومت کو یہ عمل کسی آئینی اور قانونی ڈھانچے میں رہ کر اور گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوے کرنا ہوگا۔ اسکے علاوہ، حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان کو علاقے کے لوگوں کو ٹھوس اور عملی اقدامات سے یہ باور کرانا ہوگا کہ جمع ہونے والی رقم صرف اور صرف علاقے کی ترقی کے لئے استعمال کیا جائیگا۔ اسکے ساتھ ساتھ، کرپشن اور غٰر ضروری شاہانہ اخراجات میں کمی لاکر ٹیکس دہندگان کو باور کرانا ہوگا کہ انہی کے پیسوں کے بل بوتے پر ان کا استحصال ہوگا۔ 

چھ عشروں تک براہ راست ٹیکس دئے بغیر رہنے کے بعد اچانک ٹیکس کا "شکار" ہونے والے طبقوں کے لئے ٹیکس کٹوتیاں اور فیسوں کا نفاذ ایک دھماکے دار سانحے سے کم نہیں ہے۔ لوگ ضرور آئینی اور قانونی معاملات بیچ میں لاکر "بغیر نمائندگی کے ٹیکس نامنظور" کا نعرہ لگائیں گے، اور اس اقدام کی مخالفت بھی زور و شور سے کریں گے، اور انہیں ایسا کرنے کا پورا حق ہے۔ 

ٹیکس کٹوتیوں میں تو حکومت نے بہت پھرتی دکھائی ہے لیکن اس کے نفسیاتی اور سیاسی مضمرات پر قابو پانے کی تیاری مکمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے اور اتفاق رائے قائم کرنا وقت کی ضرورت تھی جس پر کام نہیں کیا گیا۔ 

حکمرانوں کو یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرنی چاہیے کہ گلگت بلتستان قانونی اور آئینی حساب سے ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اسکے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ ابھی تو یہاں 1973 کا متفقہ آئین من و عن لاگو نہیں ہے۔ اسلئے ایک بہت ہی نازک فیصلہ کرنے سے قبل اتفاق رائے پیدا کرنا انتہائی ضروری تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ انتہائی عجلت میں حکومت نے ایک اہم فیصلہ کرلیاہے۔ اب خدشہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف علاقے میں غم و غصہ کی لہر دوڑے گی اور شائد احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کی نوبت بھی آجائے۔ ایسے میں پولیس اور دوسرے انتظامی قوتوں کو اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے کسی بھی بیوقوفانہ حرکت سے گریز کرنا ہوگا۔ اگر ٹیکس مخالفین کو کوئی شہید مل گیا تو پھر اس حکومت اور موجودہ نظام کی خیر نہیں ہے۔

1 comments:

خرم ابن شبیر نے لکھا ہے کہ

ایسا ہی ہوتا ہے جناب۔ چور ڈاکو کھاتے رہتے ہیں اور غریب ٹیکس دیتے رہتے ہیں

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔