Tuesday, January 08, 2013

گلگت بلتستان میں سنجیدہ قیادت کا فقدان

خطہ گلگت بلتستان گزشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم چلا آرہا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں درج زیادہ تر حقوق ہمیں میسر نہیں ،کیونکہ ہمارا علاقہ قانونی اور آئینی لحاظ سے فی الحال کسی ریاست کا حصہ نہیں ہیں.

  پاکستانی ریاست گزشتہ چھ دہائیوں سے عارضی قوانین کے تحت ہمارے معاشرے کو چلارہا ہے اور آثار یہ بتاتے ہیں کہ اس صورتحال میں مستقبل میں بھی بہت زیادہ تبدیلی نہیں آسکے گی۔

 اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عارضی قوانین اور انفرادی احکامات (صدارتی فرامین) سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن ہماری پیچیدہ معاشرتی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر عارضی اقدامات سے دیر پا استحکام اور ترقی کی توقع رکھنا خوش گمانی اور خود فریبی کے مترادف ہے۔ 

گلگت بلتستان کی تاریخ میں موجودہ انتظامی ڈھانچہ بہت حوالوں سے منتخب نمائندوں کونسبتا زیادہ اختیارات کا مالک بناتاہے۔ نمائندوں کی قوت اور ان کے اختیارات میں اضافہ گلگت بلتستا ن کے عام لوگوں کی بھی خواہش ہے لیکن ساتھ ساتھ عوام یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ منتخب نمائندے اپنی قانونی اور منصبی طاقت کو نہ صرف فلاح عامہ کے لئے استعمال کریں گے بلکہ ایسے دیرپا اور مستحکم اقدامات اٹھائیں گے جن سے آنے والے نسلوں کی زندگیا ں بہتر ہو سکے۔ 

تاہم، اصل صورتحال یہ ہے کہ تقریباتمام نمائندے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے منصب کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اقربا پروری کو فروغ دیا جا رہا ہے اور میرٹ کا کھلے عام قتل کیا جا رہاہے۔ بہت ساروں پر تو مالی غبن میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا جا رہاہے۔ اگر یہ الزامات غلط بھی ہوں تو اس حقیقت سے انکار اور فرار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اور ہماری منتخب اسمبلی امن عامہ برقرار رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ دن دیہاڑے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے،ہینڈ گرینیڈ اور دیسی ساختہ بموں سے عوامی مقامات اور اجتماعات کو نشانہ بنانے کی مزموم کوششیں ہو رہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہمارے اسمبلی کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ ایسے میں عوام یقینی طور پر مایوسی کا شکار ہیں۔ 

پریشان کن صورتحال یہ بھی ہے کہ حالات کی نزاکت اور اپنی کمزوریوں کو سمجھتے ہوئے حکومت کی حاکمیت عملا ثابت کرنے کی بجائے حکمران طبقہ، بشمول وزیر اعلی، بیان بازی میں مصروف ہے۔ اخباری بیانات کے ذریعے یہ تاثر پھیلایا جا رہے کہ گلگت بلتستان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور ہر طرف امن و سکون کی بارش ہورہی ہے۔ جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے علاوہ بجلی کا نظام درہم برہم ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور ادویات میسر نہیں ہیں، ملازموں کے تنخواہ کی ادائیگی کے لئے فنڈز کی کمی ہے ،آئے دن مختلف محکموں میں ہڑتال اور احتجاج کئے جار ہے ہیں، محکمہ خوراک و زراعت میں کرپشن کی داستانیں عام ہیں، محکمہ تعلیم میں کھلے بندوں پوزیشن فروخت کئے جارہے ہیں اور غیر قانونی بھرتیاں جاری ہیں۔ 

ایسے میں علاقے کے سنجیدہ طبقے، بشمول نوجوانان، اپنے رہنماوں کی کارکردگی اور ان کے دعووں کا موازنہ کرنے کے بعد یا تو شرمسار ہوجاتے ہیں یا پھر ان کا مذاق اڑاتے ہیں، بلکہ بعض تو گالیاں دے کر دل کا غبار ہلکا کرتے ہیں۔ حیرت کہ بات یہ ہے کہ میں نے ایسے نوجوان کم ہی دیکھے ہیں جو گلگت بلتستان اسمبلی میں موجود افراد کے بارے میں مثبت خیالات رکھتے ہو۔

اگر زبان خلق نقارہ خدا ہے تو حکمران طبقے کو نوشتہ دیوار پڑھ کر اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانے کی سخت ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور گلگت بلتستان کی موجود ہ حکومت اور اس کے بعد آنے والی حکومتیں عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کی بجائے زحمت کی علامت بن گئیں تو گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی جدوجہد کمزور پڑ جائیگی اور یہ کسی بھی طرح نیک شگون نہیں ہوگا۔ اگر عوام میں یہ تاثر جڑ پکڑ گیا کہ حکمران طبقے چاہے مقامی ہو یا غیر مقامی، ہمیشہ استحصالی ہی رہیں گے تو نصف صدی سے جاری آئینی حقوق کی جنگ سرد ہو جائیگی اور ہم عرصہ دراز تک اسی طرح بے نام ونشان اور بے شناخت ہی رہیں گے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔