Saturday, June 16, 2012

زبان ...... علم کا زریعہ

سید پیر کرم علی شاہ گلگت بلتستان کے نامور سپوت ہیں. ایک بزرگ سیاسی اور مذہبی شخصیت کی حیثیت سے انہیں  پورے علاقے میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. جب سے وہ گلگت بلتستان کے گورنر کے منصب پر فائز ہوے ہیں ان کے نام کا ڈنکا پورے ملک پاکستان میں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بھی بجنے لگا ہے. گذشتہ دنوں گلگت میں کسی تقریب کے دوران انہوں نے علاقے کے نوجوانوں کو اپنی مادری زبان، علاقائی زبانوں اور قومی زبان میں بات کرنے کی ترغیب دی ہے. اور فرمایا ہے کہ انگریزی زبان میں بات کرنے پر کسی بھی قسم کا فخر محسوس نہیں کرنا چاہیے.

بات اصولا درست ہے. دل کو لگتی ہے اور بنظر غائر علاقے کی ثقافتی بھلائی کے لیے درد رکھنے والے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے. یقینا انسان کی مادری زبان، علاقائی زبانیں اور قومی زبان کو  دوسری تمام زبانوں اور ثقافتوں کے مقابلے میں مقدم سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اسی طرح سے کافی عرصے تک معاشرے اور اسکے اندر موجود افراد کی نمود ہوئی ہے.

یہ ساری اچھی باتیں اپنی جگہ، پیر موصوف سے منصوب اسی بیان کے  ایک حصہ نے، جو ایک مقامی روزنامے میں سرخی کی شکل میں شائع ہوئی، دل کو کافی رنجیدہ بھی کیا. بلکہ یوں سمجھیں، کافی حیرت زدہ بھی کر دیا.  پیر صاحب نے، اخباری سرخی کے مطابق، فرمایا  ہے کہ وہ انگریزی زبان سے نفرت کرتے ہیں. اسی پر بس نہیں، پیر صاحب نے چار قدم آگے جاتے ہوے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ انگریزی زبان میں بات کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں.

انسانی دماغ چکرا کر رہ جاتاہے. ایک مخصوص زبان سے اتنی نفرت کہ ایک معتدل طبیعت کا انسان اس میں بات کرنے کو گناہ تصور کرے! آخر کیوں؟ سیاسی مصلحتیں اپنی جگہ، لیکن یہ بیان انتہائی نامعقول معلوم ہوتا ہے.

مادری اور علاقائی زبانوں کو سیکھنا اور ان کی اہمیت کو سمجھتے ہوے ان کی ترویج کے لیے کوشش کرنا اپنی جگہ درست ہے، لیکن اس کا مطلب ایسا بلکل بھی نہیں ہے کہ دوسری زبانوں سے نفرت کی جائے یا ان کو برا سمجھا جائے. اور وہ بھی ایک ایسی زبان سے جو، ہماری اور آپ کی پسند و ناپسند سے ماورا، آج کی  دنیا میں رابطے ، علم و تحقیقن اور معیشت کی زبان بن چکی ہے! کسی زمانے میں یہ حیثیت لاطینی زبان کو حاصل تھی، اور کبھی عربی و فارسی اس مقام پر فائز تھے، لیکن آج نہیں.

میں بذات خود انگریزی کی محبت میں گرفتار شخص نہیں ہوں، لیکن میں اسکی اہمیت سے غافل بھی نہیں ہوں.

اگر، خدا نخواستہ، گلگت بلتستان کے نوجوان  پیر صاحب کی اس بات پر عمل کرتے ہوے انگریزی سے نفرت کرنے لگ جاۓ، اور اسے سیکھنا بند کر دے، تو وہ جدید علوم کیسے سکھ سکیں گے؟

 کیا انٹرنیٹ کی زبان وخی یا کھوار ہے؟ کیا نصابی کتابیں بروشسکی اور شینا میں لکھی جارہی ہیں؟ کیا بلتی زبان میں سائنسی مقالے اور تجدید علوم کے حوالے سے تحقیقی رسائل لکھے جا رہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کی ان زبانوں میں کوئی ایک اخباریا ایک ہفتہ وار صفحہ بھی شائع ہوتا ہے؟

کیا پیر صاحب کی حکومت نے گلگلت بلتستان کے کسی سکول میں مقامی زبان میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ہے، یا کبھی اس کے متعلق سوچا ہے؟

اگر ان سب سوالوں کا جواب "ناں" میں ہے، تو پھر پیر صاحب ہمیں بتا دے کہ ہم لوگ اور بعد میں آنے والی نسلیں علم کہاں سے، کونسی زبان میں، حاصل کریں؟

 اردو زبان میں تو ابھی سائینسی اور علمی مقالوں کا ترجمہ بھی صیح طرح سے نہیں کیا جا پارہا ہے. فارسی آج "شاعروں" کی زبان بن کر رہ گئی ہے اور عربی زبان کو  مذہبی طبقہ سے منسوب کر کے رکھا گیا ہے. تو آخر آج کے طلبا و طالبات اپنی علمی پیاس، اور اپنی ملازمتی ضروریات کیسے حاصل کر سکیں گے، اگر وہ اس زبان سے ناواقف ہیں، یا اس سے نفرت کرتے ہیں؟ 

پیر صاحب کو تو شاید  عمر کے اس حصے میں نیے علوم سیکھنے کی کوئی حاجت نہیں ہو، لیکن طلبہ و طالبات نے ابھی اپنی زندگیوں میں آگے جانا ہے. علم حاصل کرنا ہے. دنیا کے سامنے جانا ہے. مقابلہ کرنا ہے. جیتنا ہے. اور انشااللہ واپس آکر، یا دور بیٹھ کر، اپنے علاقے کی علمی، ادبی، سماجی اور ثقافتی خدمت کرنا ہے.

خدارا، ان کو زبان سیکھنے اور سکھانے سے مت روکیں. فتوے مت دے. اگر زبان کا درد ہے تو مقامی زبانوں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کروا دے.  اور اگر فتوے دینے ہی ہیں تو از راہ کرم اپنے بچوں کو بھی انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے سے روک دے.

یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کے بیٹے تو امریکی جامعات میں مکمل انگریزی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور آپ گلگت میں قوم کو انگریزی میں گفتگو کر کے "گناہ" نہ کرنے کی صلاح دے رہے ہیں؟

اگر آپ کے اجداد، جن کی علمیت کا منطقی اور عقلی بنیادوں پر زمانہ معترف ہے، فارسی اور عربی نہیں سیکھتے اور دینی علوم پر دسترس حاصل نہیں کرتے تو آج آپ بھی اس مقام پر نہیں ہوتے.  

5 comments:

Aafiyat Nazar نے لکھا ہے کہ

کرم علی شاہ صاحب اپنے بیٹوں کو امیریکہ کونسی زبان کی بدولت بھیجے ہو۔اور وہ وہاں کھوار زبان نہیں سیکھ رہے ہیں۔ منافقت کی بھی حد ہوتی ہے۔یہ کیوں نہیں کہتے ہو کہ مجھے انگریزی نہیں آتی

shupun نے لکھا ہے کہ

great reply

haider Amin نے لکھا ہے کہ

Dear NOOR!
Ager peer sb ne waqi ye baat ki hai then ye sahe nahe... mujhay aik cheez janni hai ... apko confirm hai k Peer sb ne aisa he kaha hai... q k as a journalist aap b jantay hain or ma bhi k aik baat ko kayi rukh diye jatay hain... ager aap 100 cent confirm hain then ma b is pe kch kahoon...

Slimtiger نے لکھا ہے کہ

Lets give a onetime amnesty to Pir sb, mainly for his age. Definitely, one can expect of such remarks from any person of his age cohort from GB (with limited exceptions) about 'Ungrezie bhasha'.

Com'n, don't you observe an identical approach of all the religio-political leadership country-wide?

علی احمد جان نے لکھا ہے کہ

peer ne ye baat neem.ghnodgi me kahi hogi

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔