Wednesday, March 28, 2012

قدرتی آفات ----- کیا تباہی ناگزیر ہے؟ حصہ اول


نور پامیری

گلگت بلتستان کو جہاں قدرتی حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں پزیرائی ملتی ہے ، وہیں ہمارے علاقے کی وجہ شہرت قدرتی آفات کی بہتات بھی ہے.
 پورے خطے میں جس طرف بھی نظر دوڑائیں مختلف خطرات نظر آتے ہیں. لٹکتے پتھر، کٹے پھٹے چٹان، برفانی تودے، پھیلتے سکڑتے گلیشر، بپھرے ہوےگلیشیائی جھیل، بجلیوں بھرے بادل، پانی سے لبریز ندی نالے ، زلزلے، سیلاب، طوفانی آندھیاں، سرکتے زمینی تودے اور بہت سارے دوسرے قدرتی عوامل ہمارے علاقے میں بسنے والی انسانی آبادیوں اور مختلف تنصیبات، مثلا سڑکوں اور پلوں کو خطرات سے دوچار کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں.

ماضی کے واقعات چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ یہ خطرات صرف حد امکان میں نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ  موجود ہیں اور ہماری روز مرہ زندگیوں پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں.

سانحہ عطاءآباد کی مثال لیجیئے.  زمینی تودہ گرنے کی وجہ سے ایک گاؤں تباہ ہو گیا. ١٩ جانیں ضایع ہو گئیں. دریا بند ہوگیا. بین الاقوامی شاہراہ دو سال سے بند پڑا ہے. سینکڑوں خاندان بے گھر ہوے اور ہزاروں خاندان وادی گوجال میں عملی طور پر محصور ہو کر رہ گئے. 

ابھی یہ آفت ٹلی نہیں تھی کہ پورے پاکستان میں موسلا دار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. بس پھر کیا تھا. سارے ندی نالے بپھر گئے. ہر طرف سیلاب اور تباہی کا منظر تھا. گلگت بلتستان میں  اتنی تباہی برپا ہوئی کہ حکام کے ہوش و حواس اڑ گئے. تقریبا ١٨٨ افراد مختلف سانحات میں لقمہ اجل بن گئے . لاکھوں لوگ اپنی زمینوں اور گھر بارسے ہاتھ دھو بیٹھے. 

ایک محتاط اندازے کے مطابق کم ازکم ٣٦،٠٠٠ (چھتیس ہزار) خاندان ٢٠١٠ میں برسنے والی  بارشوں  اور اسکے نتیجے میں رونما ہونے والی آفات کی وجہ سے متاثر ہوے. اگر ایک خاندان میں لوگوں کی اوسط تعداد آٹھ (٨) لی جاۓ تو اس حساب سے تقریبا دو لاکھ اٹھاسی ہزار افراد صرف گلگت بلتستان کے سات اضلاع میں متاثر ہوے.  متاثرین کی یہ تعداد گلگت بلتستان کی کل آبادی کا تقریبا انیس (١٩ فیصد) بنتا ہے. 

سال ٢٠١٢ میں اب تک  ضلع غذر کی  وادی یاسین میں واقع  قرقلتی نامی گاؤںبرفانی تودہ گرنے کی وجہ سے متاثر ہو چکا ہے. اس گاؤں میں کم از کم چارقیمتی جانیں ضایع ہوئیں ہیں.


 آثار یہی بتاتے ہیں کہ آفات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا. بلکہ بعض ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے مستقبل میں  قدرتی آفات زیادہ تواتر اور شدت کے ساتھ رونما ہو سکتے ہیں. 

ان قدرتی آفت کی وجہ سے طبعی اور جانی نقصانات کے علاوہ لاتعداد سماجی، معاشی  اور سیاسی اثرات  بھی جنم لیتے ہیں. عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر فی الفور مسائل حل نہیں کئے جاۓ تو قدرتی آفات سے متاثر  افراد شدید نفسیاتی دباؤ کا شکارہوجاتے ہیں. اگر تباہی بڑے پیمانے پر ہو تو پورے معاشرے میں بے چینی اور بے یقینی کی سی کیفیت پھیل جاتی ہے. یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس دباؤ اور تناو کی وجہ سے سیاسی رد عمل بھی ظاہر ہو سکتاہے.

کیا قدرتی آفات ہمیشہ ہلاکت خیز ہوتے ہیں؟ کیا ان سے بچنا ممکن ہے؟  کیا احتیاطی تدابیر سے قدرتی آفات کو روکا جاسکتاہے؟ یا ان کے اثرات کو کم کیا جا سکتاہے؟ 

دنیا بھر میں ماہرین، پالیسی ساز ادارے اور قدرتی آفات کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے ہمیشہ خود سے یہ سوال کرتے ہیں. اور ان سب سوالات کو جواب "ہاں" کی صورت میں ملتا ہے. 
جزیرہ جاپان بھی قدرتی آفات کی زد پر واقع ملک ہے.


زلزلوں اور سونامی کے لیے مشہور ملک جاپان حکومت نے قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے مختلف عملی اقدامات اٹھا کر خطرات کو بہت حد تک کم کر دیا ہے. ٢٠١١ میں جاپان ایک تاریخی زلزلے کا شکارہوا، جسکی شدت ریکٹر سکیل پر ٩ (نو) ریکارڈ کی گئی. اس زلزلے کی وجہ جنم لینے والی سونامی کی زد میں آکر جاپان کے کہیں ساحلی شہر کھڈرات کا منظر پیش کرنے لگے.  سونامی اور زلزلے کی وجہ سے تقریبا ١٨٠٠٠ افراد لقمہ اجل بن گئے.

آگر سانحہ جاپان کا کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں رونما ہونے والے آٹھ اکتوبر ٢٠٠٥ کے سانحے  سے موازنہ کیا جاۓ تو پتا چلتا ہے کہ ریکٹر سکیل پر نسبتا کم شدت، یعنی ٧.٨   (سات اعشاریہ آٹھ )،  زلزلہ ہونے کے باوجود جاپان کی نسبت پاکستان میں پانچ گنا زیادہ تباہی ہوئی. پاکستان میں کم از کم ٨٨ ہزار افراد ہلاک ہوے. لاکھوں گھر تباہ گئے. متعدد شہر ملیا میٹ ہو گئے اور پورے علاقے میں طبعی انفراسٹرکچر کو شدید ترین نقصان پہنچا.

محقیقن کے مطابق پاکستان میں زیادہ تباہی کی وجہ نامکمل تیاری، غیر معیاری طرز تعمیر اور تلاش  و بچاو کے حوالے سے آگہی کا فقدان تھا. زیادہ تر اموات عمارتیں گرنے کے باعث رونما ہویئں. یاد رہے کہ آٹھ اکتوبر کو رونما ہونے والے  زلزلے کی زد میں  تقریبا پچیس ہزار طلبا و طالبات بھی  آئے تھے، کیونکہ ان کے سکولوں کی عمارتیں انتہائی غیر محفوظ تھیں.

دوسری طرف جاپان میں نسبتا کم اموات کی وجوہات میں بہتر طرز تعمیر، قومی سطح پر آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فعال نظام کی موجودگی اور عام لوگوں میں قدرتی آفات کے حوالے سے بہتر شعور اور آگاہی شامل ہیں.

گلگت بلتستان کے حوالے سے قدرتی آفات پر کام کرنے والے اداروں، منتخب حکومت اور انتظامیہ کے افراد کو سکولوں اور دوسرے عمارتوں کی محفوظ تعمیرکو یقینی بنانے کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے. کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان میں موجود اسی فیصد عمارتیں زلزلوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں. اس کے علاوہ، بہت سارے مکانات ندی نالوں، سیلابی گزر گاہوں، پہاڑوں کے دامن میں واقع ہو نے کی بدولت نمایاں خطرات کی زد پر ہیں.

یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ آگر حکومت گلگت بلتستان عمارتوں کی محفوظ تعمیر کے حوالے سے قانون سازی کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تو لاکھوں افراد کی زندگیوں اور انکے اموال کو محفوظ بنایا جا سکتاہے. اس حوالے سے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں.  

- جاری ہے - 

1 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

Well written document for future considerations. A number of relevant questions have been raised and the readers, particularly people working in government institutions, NGOs and other organizations and they responsibilities of dealing with the issues of disasters, both natural and man made, should take advantage of this write up. Well done Noor and keep it up. Looking forward to the second part as well.

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔