Tuesday, June 14, 2011

دوہٹ ،بجلی کے کھمبے اور درکوت

گلگت بلتستان کی زمین قرتی حسن سے مالا مال ہونے  کے ساتھ ساتھ، بہت ساری پراسرار کہانیاں بھی اپنے سینے میں چھپائے بیٹھی ہے . چند روز قبل وادی یاسین کے گاؤں درکوت تک جانے کا موقع ملا. یہ گاؤں انتظامی مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے پسماندہ توپہلے سے  تھا  لیکن پچھلے سال کے سیلاب نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے. ہزاروں کنال زمین تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ہے اور لوگوں کی معاشی مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے . حکومت سے لوگوں کو بڑی شکایات ہیں کیوںکہ ان کے بقول اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق لوگوں کو چند ہزار روپے "عیدی" کے طور پر دینے کے بعد سرکار کے ایوانوں میں  لمبی  خموشی کا دور دورہ ہے.

  خیر اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں. آج کی یہ تحریر درکوت کے مسائل کے حوالے سے نہیں بلکہ لکٹری کے چند کھمبوں کی شان میں  لکھی گئی ہے  جو ترست گاؤں سے جاتے ہوے درکوت کے شروع میں موجود ہیں.  


درکوت کے شروع میں ایک قدرے طویل وادی ہے  جس کے دونوں طرف  عمودی چٹان ہیں.  اکتوبر  اور  مئی کے درمیانی  مہینوں میں جب اس وادی میں برفباری  ہوتی  ہے تو چٹانوں میں موجود گھاٹیاں برف سے بھر جاتی ہیں اور تقریبا ہر سال یہ  جمع شدہ برف   تودوں کی شکل میں ایک طوفانی کیفیت کے ساتھ زمین کا رخ کرتا ہے .  جب یہ برفانی تودے نیچے کی طرف آتیں ہیں تو اپنے راستے میں موجود ہوا کو بھی انتہائی دباو کے ساتھ نیچے کی طرف دھکیل دیتے ہیں  جس کی وجہ سے  خوفناک آندھیاں  چلنے لگتی ہیں اور کڑاکے دار آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں. یہ آوازیں غالبا  گونج کی وجہ سے پیدا ہوتیں ہیں کیوںکہ سردی کے موسم میں ہر طرف برف جم جاتا ہے اور تنگ وادی میں گونج کی شدت  زیادہ ہو جاتی ہے.   اس خوفناک طوفان کو مقامی زبان میں دوہٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور پورے علاقے میں ان کی وجہ سے دہشت سی پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے. برفانی تودوں کے ساتھ خوفناک آندھیوں اور آوازوں کی وجہ سے علاقے میں لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوے سنا گیا کہ یہ دوہٹ  بلاؤں اور جنات کی وجہ سے رونما ہوتیں ہیں.


  یہ خوفناک آندھیاں اپنے سامنے موجود ہر ایک چیز کو نیست و نابود کر دیتے ہیں. درکوت  کے لیے بجلی ترسیل کرنے والے کھمبے بھی ہر سال ان طوفانی آندھیوں اور برفانی تودوں کی زد میں آکر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے اور محکمہ برقیات کے اہلکاروں کو نئے کھمبے لگانے پڑتے ہیں. 

لکڑی کے یہ کھمبے یوں تو بلکل معمولی سے ہیں، لیکن  اگر تھوڑی دیر کے لیے تصور کیا جاۓ کہ درکوت کے  وادی دوہٹ میں  ایستادہ یہ کھمبے جاندار ہیں اور سوچ سمجھ رکھتے ہیں، تو ان کی "زندگی" سے  کافی مطالب نکالے جا سکتے ہیں. یہ کھبے، ایک تناظر میں، بنائے ہی اسی لیے جاتے ہیں کہ ان کو تباہ ہونا ہے. پھر بھی یہ "فرضی" جاندار کھمبے پورے سال اپنی "باری" کا  انتظار کرتے ہیں  اور پھر کسی دوہٹ کی زد میں آکر چھوٹے پرخچوں کی صورت میں پہاڑ کے اطراف میں بکھر جاتے ہیں. جب "دوہٹ کا سیزن" ختم ہو جاتا ہے تو سفیدے کی درخت سے تراشا ہوا ایک اور کھمبا اپنے "مرحوم" ساتھی کی جگہ کھڑا ہو جاتا ہے، اور تباہ ہونے کا انتظار کرتا ہے.

کیا ہم بھی زندگی کے اس دوہٹ کے سامنے اپنے ارادوں کے کھمبے کھڑا کر سکیں گے؟ کیا ہم بھی درکوت کے شروع میں لگے ان لکڑی کے کھمبوں کی مانند خود کو مضبوط  بنا سکیں گے؟ 

1 comments:

Usama Talat نے لکھا ہے کہ

بہت ہی اعلیٰ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔