Monday, June 06, 2011

وزیر اعلی گلگت بلتستان کی "فیاضیاں" اور کار حکومت

گلگت بلتستان کا  منتخب وزیر اعلی ایک منجھا  ہوا  سیاستدان ہے. زمانہ طالب علمی، جو نسبتا مختصر ثابت ہوئی، سے لے کر آج تک وہ ایک سیاسی کارکن اور رہنما کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں منوا چکے ہیں.  وزیر اعلی کے عہدے تک پہنچنا بذات خود ایک روشن دلیل ہے کہ  مہدی شاہ سیاسی طور پر بہت مضبوط ہے

کسی بھی سیاسی رهنما کی ترقی میں عوام کا بڑا کردار ہوتا ہےکیوںکہ انہی لوگوں کی غربت اور لاچاری کا رونا روتے ہوے، ان کے مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کرتے ہوے،  ان  رہمناؤں کی سیاسی نمود ہوتی ہے اور لوگ ان پر اپنے ووٹ اور نوٹ، دونوں، نچھاور  کر دیتے ہیں ، اس امید پر کہ ان کے مسائل حل ہونگے اور ان کے انقلابی لیڈر نہ تو موسم کی طرح بدلے گے نہ ہی رکے ہوے پانی کے مانند  رکے رہیں گے. 


 عام لوگوں کی یہ توقع بجا ہے کیوںکہ سیاست لین دین کا معاملہ ہے، آپ لوگوں کے مسائل حل کر کے ان کا اعتماد حاصل کرتے ہیں یا پھر مسائل حل کرنے میں ناکام ہو کر ان کا اعتماد کھو دیتے ہیں، اور اگر جمہوری طریقے سے کام چل رہا ہو تو ووٹ کی طاقت سے لوگ نئے نمایندے  بھی چن لیتے ہیں. 


ہاں کچھ علاقوں میں ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مذہبی اور دوسرے رجحانات کے باعث "مومن لوگ" (محاورہ والے مومن) بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈستے گیئے  اور اف تک نہیں کیا 
!!

خیر بات آگے نکل گئی. اصل بات ہو رہی تھی سید مہدی شا ہ صاحب کے بارے میں، جو پیر پگاڑو کی طرح " روحانی" طاقتوں کے حامل تو نہیں ہے لیکن ان کی طرح کے بیانات ضرور دیتے رہتے ہیں. اپنے آپ کو بذبان خود، ڈھٹائی سے، ہیرو قرار دینا اسی طرح کے "مزاحیہ" بیانات کی فہرست میں آتا ہے. 

لیکن، آپ جو بھی کہے چیف منسٹر صاحب دل کے اور ہاتھ کے کھلے ہیں. مطلب یہ کہ جہاں بھی جاتے ہیں، اپنا بٹوہ (پرس ) کھول کر غربا اور مساکین میں پانچ سو یا ہزار روپیہ بانٹ دیتے ہیں. ان کا کیمرہ مین مستعدی سے اس طرح کی "انسانی ہمدردی "   کے مثالوں کی چابکدستی سے عکاسی کرتا ہے اور اگلے دن کم از کم تین چار اخبارات میں وزیر اعلی صاحب "نقد امدد" دیتے ہوے نظر آتے ہیں  اور ہم جیسے " بے خبر" لوگوں تک "خبر" پہنچائی جاتی ہے کہ صاحب نے کرم بخشش فرما کر اپنے زاتی بٹوے سے رقم تقسیم کی ہے.


 اس طرح کی فیاضی یقینآ ایک خوش آئند روایت ہے، کیوںکہ ماضی میں ایسے "چیف صاحبان" بھی ملے ہیں جنہوں نے اپنے غریب ملازموں کے دو- دو ہزار روپے تک کھا لیے ہیں، بغیر کسی شرم و حیا اور غیرت کے  


 مہدی شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر نا اہلی کے الزامات تو لگائے  جاسکتے ہیں لیکن بندہ چور نہیں ہے. یہ ایک اچھی اور قابل تعر یف بات ہے اور ہمارے علاقے کے دوسرے "رہنماؤں" کو بھی وزیر اعلی کی طرح طرز عمل اپنا کر چوری جیسے قبیح فعل سے پرہیز کرنی چاہیے اور اپنی صلاحیتیں بڑھانے میں بھی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے... کیا پتہ، کونسا ہنر کب،کہاں، کام آجائے؟ 


یہ الگ بات ہے کہ فیاضی جیسے ناپید وصف سے مالا مال ہونے اور مالی بد عنوانی سے مبینہ طور پر  صاف ہونے کے باوجود بھی کار حکومت میں شا ہ صاحب کوئی خاص کمال نہیں دکھا سکے ہیں. 


اس تحریر میں، جسے شاید کوئی بھی نہیں پڑھے، ان کی حکومت کی  کچھ ناکامیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، تاکہ ان کی سیاسی ، انتظامی  اور  قائدانہ صلاحیت اور تدبر کو سچ کی کسوٹی پر پرکھا جاۓ

 ان کے دور حکومت میں گلگت میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ نہیں بجھ سکی، البتہ سکردو جیسے پر امن شہر میں وال چاکنگ، فائرنگ اور فرقہ وارانہ جلسہ جلوس کا ایک مکروہ سلسلہ شروع ہو گیا. ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سکردو میں دفعہ ١٤٤ کا نفاز کیا گیا تاکہ لوگ گروہوں کی شکل میں ایک جگہ جمع نہ ہو سکے. انتظامیہ کے مطابق جلسہ جلوس اور تقاریر کی صورت میں نقص امن کا خدشہ ہے

بہت دنو ں سے بلتستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھنے والا عالم برج تکنیکی خرابی کی وجہ سے بند پڑا ہے اور بلتستان کے دور دراز علاقوں میں رسد کی کمیابی کی وجہ سے صارفین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے. اپنی صوبائی حکومت ہونے کے باوجود، ہزار وعدوں بعد بھی اس عالم برج کو سہارا دینے والے لوہے کی ایک تار ٹھیک نہیں ہو سکی ہےاور چیف منسٹر صاحب اور ان کی کابینہ کے اراکین اخباری بیانات کی مدد سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی بھونڈی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں.  ایف ڈبلیو او اور این ایچ اے سے اگر ایک برج ٹھیک نہیں کرواسکتے تو ہم وزرا اور اراکین کونسل کی اس فوج ظفر موج کے نخرے کس کھاتے میں اٹھائیں؟ 

متاثرین سیلاب آج بھی در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور ان کی داد رسی یا تو غیر حکومتی اداروں نے کی یا پھر اقوام متحدہ نے. نہ ان بے گھر افراد کے مستقل رہائش کا کوئی بندوبست کیا جا سکا ہے اور نہ ہی تباہ ہونے والے دیہات کی تعمیر نو کا کوئی انتظام

متاثرین ہنزہ اور گوجال کی تو بات ہی نہ کریں، کیوںکہ مہدی شاہ صاحب اور ان کے کابینہ کے ایک جیالے "ڈاکٹر" وزیر نے ان بے گھر اور بے زمین افراد کو "تمغہ ناشکری" سے نواز کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے. باقی رہے نام اللہ کا 

ایک اور بہت بڑی ناکامی سرکاری اداروں میں مالی بد عنوانیوں میں شدید اضافہ اور نسلی ، پارٹی اور فرقے کی بنیادوں پر لوگوں کی تقرریوں کا ناقابل برداشت معاملہ ہے.   چیف منسٹر صاحب خود اس بات کا کئی بار اعتراف کر چکے ہیں کہ تمام سرکاری اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور وزرا، اراکین اسمبلی، سرکاری افسران ، ہر کوئی اپنے فائدے کے لیے کام کر رہا ہے. کئی کمیشن بنائے گیئے ہیں، اسمبلی کے اندر پبلک اکاونٹس کمیٹی بنی ہوئی ہے، لیکن آج تک کسی ایک بھی شخص کو سزا نہیں دی جا سکی ہے، اور اس کا ذمہ دار یقینآ مہدی شاہ سرکار کو ٹھرایا جائیگا. 


شندور میلے کا ایک "کامیاب" بائیکاٹ کرنے کے باوجود مہدی شاہ سرکار اس مسلے کا کو ئی حل نہیں نکال سکی ہے. خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت پنجابی گھوڑوں کو وادی شندور میں دوڑانے کا انتظام کر رہا ہے، یعنی معامله سلجھنے کی بجائے مزید الجھنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے. اور مہدی شاہ سرکار کے وزیر اور مشیر ابھی تک کوئی واضح موقف ظاہر نہیں کر سکے ہیں. 

امید یہی کی جاسکتی ہے کہ غلطیوں کو دہرا کر گلگت بلتستان کے مایوس اور محروم عوام کے استحصال میں حصہ دار بننے کی بجاۓ، ہمارے رہنما اپنے لوگوں کی خدمت کے جذبے کو بروے کار لاتے ہوے "نقد امداد" کی  تصویری سیاست سے نکل کر ٹھوس اور دیرپا پالیسیوں کی مدد سے لوگوں کے مسائل حل کریں گے اور علاقے کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کریں گے

3 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

Well scripted argument, quite funny though, giving a balanced over-review of 'great doings' of our so called leaders. Keep it up!

Anonymous نے لکھا ہے کہ

all the ways, Out standing. Nice Nur Brother.

kashif نے لکھا ہے کہ

Nur Bai you have taken a great step to open eyes of people of Gilgit-Baltistan. it must be appreciated and encouraged, on all platforms of GB......Best Wishes and Keep it up....

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔