Tuesday, May 17, 2022

نسل پرستی کا عفریت

 

تصویر بشکریہ این پی آر 
گزشتہ دنوں نیویارک ریاست کے بالائی علاقے، بفیلو، میں ایک سفید فام نسل پرست فاشسٹ دہشتگرد نے ایک مارکیٹ کے اندر
10 سیاہ فام افراد کو فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ اپنی اس سفاکی کو اس دہشتگرد نے "ٹوئچ" نامی ایک آن لائن پلیٹ فارم پر "لائیو سٹریم" کیا۔

اس قتل عام کا ذمہ دار ایک 18 سالہ نوجوان ہے، جو سمجھتا ہے کہ سفید فام افراد سب سے اولی و اعلی ہیں اور دیگر تمام اقوام، بشمول سیاہ فام، ایشیائی، جنوبی ایشیائی، وسطی ایشیائی، یہودیوں، کو امریکہ سمیت "یورپی نژاد" ممالک میں رہنے کا حق نہیں ہے۔

اس نامراد مردود نے، جو پولیس کی تحویل میں ہے، نے اپنی سفاکی کا جواز فراہم کرنے کے لئے ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک "منشور" یا مینیفسٹو بھی جاری کیا ہے جس میں اپنی نفرت زدہ شیطانی سوچ کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

نسل پرستی ایک لعنت کی طرح اس ملک میں پھیلی ہوئی ہے، بالخصوص نسل پرست سفید فاموں میں، جو اس خوف کا شکار ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی و اقتداری قوت کم ہوتی جارہی ہے، اور اب انہیں اپنی "عالیشان ماضی" کی طرف واپس جانے کے لئے خون بہانے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح کی نسلی تفاخر پر مبنی سوچ رکھنے والے ہمارے ممالک میں بھی پھیلے ہوے ہیں، کسی نہ کسی شکل میں۔ ہندوستان میں دیکھیں جہاں اعلی ذات کے ہندو اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے تمام بہیمانہ طریقے استعمال کر رہے ہیں۔

 ہمارے ملک میں بھی نسل پرست، جو اپنی نسل یا سماجی گروہ کو دوسروں سے افضل مانتے ہیں، ہر گلی اور نکڑ میں پھیلے ہوے ہیں، اور اپنے خبث باطن کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔

 اس لعنتی سوچ کو ختم کرنے کے لئے ہمیں انسانی اقدار اور افکار اپنانے ہونگے اور لسانی، نسلی یا مذہبی تفاخر میں مبتلا افکار کی بیخ کرنی ہوگی۔ ورنہ نفرت کا یہ جوالا پرامن بقائے باہمی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے گا۔

مکمل تحریر >>

Saturday, February 05, 2022

میرا نام وخی ہے

 



میں آج اپنے بارے میں آپ کو کچھ بتانے جارہا ہوں۔ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ  میں صدیوں سے آپ کی برادری کا حصہ ہوں۔ آپ کے منفرد اور پیاری زبانوں کی طرح میں بھی  اپنے قوم کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ اور تمدن کا اجتماعی حافظہ اور مظہر ہوں۔

مجھے "وخی" اس لئے کہتے ہیں کہ میرا جنم وخان میں ہوا، جو ڈیڑھ سو  سال پہلے تک ایک چھوٹی سی ریاست تھی اور اب تاجکستان اور افغانستان کے درمیان منقسم ایک پہاڑی علاقہ ہے۔

مجھ میں دریائے آمو کی روانی اور چاشنی بھی ہے اور سطح مرتفع پامیر کے سبزازاروں میں کھلنے والے پھولوں کی مہک بھی۔ میں جدید اور زندہ بھی ہوں اور قدیم بھی کیونکہ میں اپنے وجود میں انتہائی قدیم الفاظ اور لہجے بھی پوشیدہ رکھتا ہوں۔

میں کب پیدا ہوا، یا کیسے پیدا ہو، اس کے بارے میں ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ راز میں فی الحال اپنے سینے میں مدفون رکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ میں ہزاروں سالوں سے وجود رکھتا ہوں۔

میرا حسب و نسب یہ ہے کہ میں زبانوں کے انڈویورپین قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے خاندان میں انڈوایرانین (ہند ایرانی) اور انڈو آرین (ہندی آریائی) زبانیں شامل ہیں۔ میرے نزدیک ترین کزنز میں جنوبی ساکا، تمشوقیز اور خُتانی ساکا جیسی ناپید زبانیں شامل ہیں۔  پشتو کے ساتھ بھی ذرا دور کی رشتہ داری ہے۔  

یوں تو مجھے ایرانی لسانی خاندان کی مشرقی شاخ میں شامل کیا جاتا ہے، لیکن میرے کچھ اوصاف مشرقی ایرانی زبانوں کی "پامیری" خانوادے میں شامل زبانوں سے مختلف ہیں۔ اسلئے بعض ماہرین مجھے فی الحال حتمی طور پر کسی مخصوص لسانی خانے میں ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ لیکن، بہرحال، یہ ایک علمی بحث ہے جو وقت اور تحقیق کے ساتھ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا۔

میرے جنم بھومی (جائے پیدائش) پر جب کابل اور قندہار کے حکمرانوں نے  برطانوی سامراج کی ایما پر حملہ کر کے قبضہ کیا یا تو کمزور حکمران اپنی ریاست چھوڑ کر تتر بتر ہوگئے۔ اس طرح میرے بہت سارے بولنے والے آپ کے مزید قریب آکر رہنے لگے۔ اب میرے بولنے والے افغانستان، تاجکستان، چینی ترکستان(سینکیانگ) اور روس  کے کونے کھدروں میں مقیم ہیں، اور صدیوں سے اپنی محنت اور قابلیت کے ذریعے ان بے آب و گیاہ بیابانوں کو آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ میرے بہت سارے بولنے والے سقوط وخان سے پہلے بھی آپ کے علاقوں میں آباد تھے، تو آپ یہ بغیر جھجھک کے کہہ سکتے ہیں کہ میں آپ کے علاقے کی تاریخ، تمدن اور تہذیب کا حصہ ہوں۔

بعض لوگ مجھے ایک "چھوٹی زبان" سمجھتے ہیں، کیونکہ میرے بولنے والوں کی تعداد کم ہے۔ ایسے لوگوں کو میری گہرائی اور گیرائی کا اندازہ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ میرے بارے میں مزید سیکھنے کی کوشش کریں گے، تاکہ ان کے مغالطے دور ہوں۔  بس اتنا کہوں کہ میں کسی بھی لحاظ سے کسی دوسری زبان سے کمتر نہیں ہوں۔

 ہاں، یہ الگ بات ہے کہ میرے بولنے والے اپنی کم تعداد کی وجہ سے سیاسی قوت نہیں رکھتے ہیں جس کے اثرات مجھ پر وقتاً فوقتاً مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ جب معاشرے میں "جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس" کی پالیسی رائج ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے۔

 ویسے آپس کی بات ہے کہ  اگر معاشرہ انصاف اور عدل کی بنیادوں پر منظم ہوتا  اور فیصلہ سازوں کی نیتیں صاف ہوتی تو میرے بولنے والوں کی کم عددی سے مجھ پر زیادہ فرق نہیں پڑتا، لیکن آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے  معاشروں میں انصاف اور عدل، برابری، کی صرف باتیں ہوتی ہیں۔

خیر۔  بعض لوگ مجھے حقیر سمجھ کر نظر انداز بھی کرتے ہیں، لیکن میں بھی بہت سخت جان ہوں۔ کسمپرسی کے باوجود  ہزاروں سالوں سے  اپنا وجود برقرار رکھا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ میرے بولنے والے اور زبانوں کی اہمیت سمجھنے والے دیگر ہزاروں افراد  مجھے مرنے نہیں دیں گے۔

میں گلگت بلتستان کے ان جوانوں سے، جو وخی زبان سے واقف نہیں ہیں، مخاطب ہوں کیونکہ وہ کل کے حکمران اور فیصلہ ساز بنیں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے بھی اپنے علاقے کی زبان تسلیم کریں گے اور میری ترقی اور بقا اور حق نمائندگی کے لئے آواز اٹھائیں گے۔

میرا نام وخی ہے۔ اور میرے بولنے والے پاکستان کے تین اضلاع، ہنزہ، غذر اور چترال میںآباد ہیں۔

آپ کا اپنا

خِھیک زِک - المعروف "وخی"

مکمل تحریر >>

Sunday, August 01, 2021

خیال سینیما کا داروغہ اور سن سیٹ پارک



شام کی آخری پہر ہے۔ دور بحراوقیانوس کے اوپر دھیرے دھیرے، غیر محسوس طریقے سے، سورج ڈوب رہا ہے۔ ہلکی ہلکی سی ہوا چل رہی ہے۔ لیکن اس ہوا میں وہ خنکی نہیں ہے جو "یازیوپک" کے سامنے پُل پر کھڑے ہو کر محسوس کی جاسکتی ہے۔ وہ گلیشیائی ہوا ہڈیوں میں اُترتی ہے تو فرحت کا احساس اُمڈ آتا ہے۔ بحراوقیانوس سے آنے والی اس ہوا کی خنکی میں ایک نرمی ہے جو من کے تار چھیڑ کر گزر جاتی ہے۔

 اسی لئے بہت سارے جوڑے ٹھنڈی گھاس پر، یا گھاس پر دریاں بچھا کر، بیٹھے غروب آفتاب کا منظر انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ میں بھی یہی پر ہوں، مگر میں اس پہر اکیلا ہوں۔ یوں تو کسی کو بھی نہیں جانتا، مگر بظاہر سب سے واقف ہوں۔

تین نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، دو گورے اور ایک مشرقی ایشیائی، میرے قریب ہی بیٹھے کھلکھلا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بئیر کی بوتلیں ہیں، اور یہ ایک دوسرے سے جام ٹکرا کر اس منظر کو اپنے حساب سے یادگار بنارہےہیں۔

تھوڑے فاصلے پر مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان ہے۔ چار عورتیں اور چند بچے اور بچیاں۔ ان کے لباس ارد گرد موجود افراد سے مختلف ہے، اور ہوا کے دوش پر ان کی آوازیں بھی وقتاً فوقتاً تیرتی ہوئی آتی ہیں۔ عربی میں ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے ہیں۔

ایک طرف دو گوری عورتیں بیٹھی ہیں۔ ان کے گرد دو شرارتی بچے ہنستے کھیلتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

کافی افراد "سن سیٹ پارک" میں موجود ہیں شام کے اس پہر۔ ہفتے کی شام ہے۔ اتوار کو چھٹی ہوگی۔ اس لئے خاندان، دوست اور احباب ایک دوسرے کے ساتھ وقت بتا رہے۔ لاطینی امریکی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ چینی نژاد افراد کا ایک بڑا سا گروہ موسیقی پر رقص نما ورزش میں مصروف ہے۔ آرتھوڈوکس یہودی افراد سے تعلق رکھنے والے، جنہیں ان کی منفرد لباس سے بآسانی پہچانا جاسکتا ہے، بھی بیٹھے نظر آرہے ہیں۔

بظاہر یہ سن سیٹ پارک دنیا کا ایک مائیکروکوزم ہے، یعنی ایک ایسا عالم صغیر  جس میں دنیا کی ساری ثقافتیں، صلاحتییں اور خاصیتیں موجود ہیں۔

دل چاہتا ہے کہ پارک میں گھوم کر مزید ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پہچانوں۔ ان سے بات نہ بھی ہو انہیں دیکھ کر خود کو یہ تسلی دلادوں کہ اس ثقافتی، لسانی، مذہبی، تہذیبی تغیر سے بھر پور دنیا میں بھی امن اور سکون کی ساعتیں ساتھ بیٹھ کر بتانا ممکن ہے۔

لیکن غروب آفتاب کی ساعت ہے۔ فلسفہ اور تحقیق، منطق، عقل کی دنیا سے تھوڑی دیر کے لئے دور جاکر بے خودی اور بے مقصدی کا احساس پانا چاہتا ہوں۔

طلب ہے فراغت کے کسی لمحے کی جو ہستی اور نیستی کےجھمیلوں سےدور لے جائے۔ بے خود کر دے۔ 

سورج غروب ہورہا ہے۔ نظریں بحراوقیانوس پر مرکوز ہیں۔ پارک میں موسیقی اور گفتگو کی صدائیں ہیں۔ ذہن کسی خیال پر مرکوز ہوتو من ایک خانقاہ یا زاویہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے، کہ عبادت ارتکاز فکر ہی کا تو نام ہے!

ایسے میں ایک آواز دل میں بھی اُبھرتی ہے۔ یہ آواز خودکلامی کی ہے۔ تنہائی اور خودکلامی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن یہ کلام بھی دنیائے خیال میں چل رہا ہے، اس لئے آوزیں روح میں گونجتی ہیں۔

یہ جو میرے ارد گرد بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، خوش و خرم، بظاہر مطمعن افراد موجود ہیں، ان پر مجھے رشک آتا ہے کیونکہ یہ زندگی کا مزا لے رہے ہیں، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ان کے گرد موجود افراد کونسی زبان بول رہے ہیں، کس مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، کس ملک سے آئے ہیں، کونسے کپڑے پہنے ہیں، یا نہیں پہنے ہیں، اور انہوں نے اس دنیا کو چھوڑ کر کہاں جانا ہے۔

ساڑھے تین سال ہوے ہیں مجھے اس ملک میں۔ کسی نے آج تک میرا مذہب نہیں پوچھا۔ کسی نے فرقہ نہیں پوچھا۔ اپارٹمنٹ بلڈنگ سے نکلتے ہوے مگر مجھے دیکھ کر "ہیلو"، "ہائی"، "ہاو از دی ویدر آوٹ سائڈ"، "ہاو آر یو ڈوئنگ ٹودے"، "ہیو اے نائس ڈے" ضرور کہتے ہیں، یہ جانے بغیرکہ میرا عقیدہ کیا ہے، یا میری ثقافت کیا ہے۔ انہیں میرے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کے لئے، مجھے برابر کا انسان قبول کرنے کے لئے، بظاہر میرے عقیدے، فرقے، مذہب یا ثقافت کے بارے میں معلوم ہونا ضروری نہیں ہے۔

لیکن ان بظاہر اچھے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہ سارے جہنم میں جائیں گے۔

"کنفرم جنتی" تو ہم ہیں۔ ا

"ہم"، کا کیا مطلب ہے، خیال سینیما کے داروغے نے اچانک وادی فکر میں سوال داغا۔

"ہم مطلب؟"میں نے تھوڑی دیر کے بعد جواب دیا۔ "ہم جو اپنے فرقے کے سوا کسی کو درست نہیں سمجھتے اور ہم جو دوسرے انسانوں کو برابر کا انسان نہیں سمجھتے"، میں نے کہا۔

"لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے کہ آپ کنفرم جنتی ہیں؟"، خیال سینیما کے داروغے نے پوچھا۔

"کیونکہ ہمارے فرقے کی کتابوں میں یہی لکھا ہے"، میں نے فوراً سے جواب دیا۔

خیال سینیما کا داروغہ خاموش ہوگیا۔

- آوارہ خیال

نوٹ: یازیوپک ایک گلیشیائی نالے کا نام ہے جو وادی گوجال میں حسینی اور غلکن گاوں کے درمیان شاہراہ قراقرم کے بہت نزدیک واقع ہے۔


مکمل تحریر >>

Monday, July 26, 2021

گندھکی، زہر آلود، سوچ

قراقرم ہائے وے سے اُتر کر گھر کی طرف جاتے ہوے ایک چھوٹی سی گلی نُما سڑک تھی، جس کی تعمیر کا واحد مقصد ٹریکٹر کو کھیتوں تک پہنچانا تھا۔ اُن دنوں ذاتی گاڑیاں اور موٹر سائیکلز رکھنے کی سکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ پتلی سڑک ایک مختصر سی ڈھلوان سے نیچے اترتی تھی۔ ڈھلوان کے اوپری سرے پر سکول سے واپسی کے بعد پہنچ کر میری یہ خواہش جاگ جاتی تھی کہ تیزی سے بھاگتے ہوے، بغیر رُکے، گھر کے اندر داخل ہوجاوں۔

راستے میں ایک چھوٹی سی نہر بہتی تھی، نہر کے قریب پہنچ کر رفتار خودکار انداز میں کم ہوجاتی تھی، کیونکہ نہر کے اوپر سے ٹریکٹر گزارنے کے لئے چھوٹے بڑے پتھر رکھے گئے تھے، جو وقتاً فوقتاً اپنی جگہے سے ہل جاتے تھے۔ رفتار کم نہ کرنے کا مطلب تھا "ٹریفک حادثہ"، یعنی کسی نوکیلی پتھر سے ٹکرا کر منہ کے بل گر جانا، یا پھر پھسل کر نہر میں گرجانا۔ ٹانگوں پر ایسے حادثات کے نشانات بابجا موجود تھے۔ کبھی کبھار ہاتھ اور بازو، حتی کی چہرے، کی جلد بھی چھل جاتی تھی ان حادثات کے باوجود بھی مگر "ٹربوتہ سپیڈ پرواہ نشتہ"، (پشتو جملہ جس کا مطلب غالباً "ٹربو کو سپیڈ کی پرواہ نہیں ہے"، جو میں نے چترال کے وادی لاسپور میں ایک ٹرک کے پیچھے بہت سال پہلے دیکھا تھا) کے مصداق ہم اپنی رفتار کم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔

"تیزابی سوچ"، بشکریہ سارہ شکیل 

خطرات کا زیادہ ادراک نہ تھا۔ معصومیت تھی۔ کھلنڈرا پن تھا۔ اسلئے گرنے پڑنے سے محض آنسو بہتے تھے، ہمت کم نہ ہوتی تھی۔ اب ہم سنجیدہ اور سمجھدار ہوگئے ہیں، آنسو نہ بھی بہے تو ہمت کے بازووں میں لغزش آہی جاتی ہے ۔۔۔۔

گلی کے دائیں طرف ایک کیاری میں پھلوں کے درخت آج بھی ہیں،جن پر ناشپاتی، سیب، چیری اور دیگر میوہ جات لگے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک 'روایت' یہ بھی تھی کہ اچھل کر گلی کی طرف جھکی ہوئی شاخوں کو چھوا جائے۔ شاخوں کو چھونے سے پتے گر جاتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی میوہ بھی ہاتھ آہی جاتا تھا۔ یہ رسم بھی میکانکی انداز میں ادا ہوجاتا تھا۔

گھر کے دروازے پر پہنچ پر تھوڑی دیر کے لئے رُک جاتا تھا، تاکہ اندر سے آنے والی آوازوں سے اندازہ لگایا جاسکے کہ کوئی مہمان یا گھر کا کوئی بڑا (مرد) تو اندر موجود نہیں۔ مرد اس لئے کہ عورتوں سے ڈرنے کا کوئی خاص رواج نہیں تھا۔ کوئی نامانوس آواز کانوں سے ٹکراتی، یا کسی بڑے کی آواز آتی، تو فوراً مُڑ کر قریب ہی بہنے والے ایک نہر تک جاتا تھا، تاکہ اس کے کنارے بیٹھ کر اپنا پاوں دھویا جاسکے۔ گلیشیر سے نکلنے کے بعد دسویں کلو میٹرز کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود بھی مٹیالا، گدلا، گلیشیائی پانی یخ بستہ ہوتا تھا۔ پاوں اندر ڈالتے ہی جھرجھری سی آجاتی تھی۔

ان دنوں پلاسٹک کے جوتے عام تھے۔ جرابیں پہننے کا رواج بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر ، تھا۔ بغیر جرابوں کے ہی جوتے پہن کر سکول جاتے تھے، جس کے باعث پاوں پسینے کی وجہ سے غلیظ اور بدبودار ہوجاتا تھا، بالخصوص گرمیوں کے زمانے میں ۔ اور اگر کسی دن پلاسٹک کے جوتے، جنہیں ہم اپنی زبان میں نہ جانے کیوں "کالوش" کہتے تھے، پہنا ہوتو پھر پاوں کی حالت عجیب سی ہوجاتی تھی۔ نہ صرف پاوں کی سڑانڈ بڑھ جاتی تھی، بلکہ چلتے پھرتے ہوے عجیب و غریب "فحش" سی آوازیں بھی آتی تھیں!

ہم گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں پڑھنے والوں کی اہمیت کچھ خاص نہ تھی، اس لئے ہم اپنے بناو سنگھار پر بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ گاوں میں مقامی افراد کی خواہش اور باہمی اتحاد و ہمت کے طفیل ایک انگریزی میڈیم سکول بن چکا تھا اور چھوٹی عمر کے بچے اُس سکول میں پڑھتے تھے۔ ان کی یونیفارم ہم سے بہتر تھی۔ یعنی ہم کالی شلوارقمیض پہنتے تھے، جبکہ وہ پینٹ شرٹ اور ٹائی لگا کر سکول جاتے تھے۔ ان کی صفائی کا بھی گھروں میں خاص خیال رکھا جاتا تھا، کیونکہ وہ انگریزی پڑھتے تھے! یوں سمجھ لیجئے کہ ایک طبقاتی نظام تھا!

ہم بھی کسی ٹاٹ سکول میں نہیں پڑھتے تھے، بلکہ ہمارے سکول کی عمارت بہت بڑی، جدید اور بہتر تھی، لیکن معاشرتی معیار کی کسوٹی پر ہمارا نمبر صفر کے آس پاس تھا، کیونکہ ہم اردو میڈیم سکول کے طلبہ تھے۔

میرے اپنے چھوٹے بھائی بہن سارے انگریزی سکول جاتے تھے۔ چچازاد بڑا بھائی گلگت میں الازہر سکول کا طالب علم تھا۔ میں واحد اردو سکول جانے والا تھا اپنے گھر میں۔ میری اور میرے بہت سارے ہم عمروں کی اس سکول میں داخلہ نہ لینے کی وجہ محض یہ تھی کہ جب انگریزی سکول تعمیر ہوا، ہم پرائمری پاس کر چکے تھے، جبکہ سکول کی اولین/ شروعاتی جماعتیں دوسری، یا غالباً تیسرے درجے تک تھیں۔

انگریزی سکول کی تعمیر میں ہم سب نے بڑھ چڑھ کر، اپنی اوقات اور بساط کے مطابق، کام کیا تھا۔ کیونکہ یہ درسگاہ گاوں کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر تھا۔ اور وقت نے اس جدید درسگاہ کی افادیت ثابت بھی کردی۔

خیر، پاوں دھونےکے بعد گھر کے اندر داخل ہوجاتے تھے۔ بستہ ، جو بسا اوقات کسی پرانے کپڑے کو ری سائیکل کر کے بنایا جاتاتھا، اور جس میں چند پھٹی پُرانی کاپیاں اور مُڑی تُڑی کباتیں بے ترتیبی سے زلف یار کی طرح نہیں، بلکہ مست گدھے کے کیچڑ سے لتھڑے بال کی طرح آپس میں خلط ملط ہوتی تھیں، سلام دُعا کے بعد ایک طرف پھینک کر چکیش (وخی زبان میں)، جسے آپ گھر کا کچن بھی کہہ سکتے ہیں، کا رُخ کرتے تھے۔ اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو خود ہی جاکر برتنوں کے ڈھکن اُٹھا کر دیکھا کرتے تھے کہ کیا چیز تیار ہے، یا دوسرے الفاظ میں کس چیز پر ہاتھ صاف کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی موجود ہو، تو بھی ڈھکنیں اُٹھا کر تحقیق کرنا اوراس کے بعد بہ آواز بلند یا کھسرپھسر کے انداز میں بڑی ماں، اماں، دادی سے فرمائشیں کرنا، زیادہ مقدار میں مانگنا، روایات میں شامل تھا۔

جس دن چھموس (خوبانی کا جوس ) ملتی، ہمارے تو وارے نیارے ہوجاتے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دو یا تین گلاس چھموس پینے کے بعد پیٹ میں گیس بھر جاتا تھا، جس کے بعد قریب بیٹھنے والوں کو بوجوہ منہ پر ہاتھ رکھ کا ، یا کپڑے سے منہ ڈھانپ کر گزارہ کرنا تھا، یا پھر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کر دور بھگاتے تھے۔

لسی بھی میری پسندیدہ غزاوں میں شامل تھی۔ خالص نمکین/تُرش لسی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتاہے۔ اور اس میں گھر کی خوشبو اور ماں کی مامتا کا رنگ شامل ہو تو پھر اس کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔

اب یہاں نیویارک میں لسی کے نام پرایک مشروب ملتی ہے، لیکن اس میں لسییت کوٹ کوٹ کر تو کجا، سرسری انداز میں بھی بھری نہیں ہوتی ہے۔

آپ کہیں گے کہ یہ مضمون لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

بندہ اکیلا ہوتو خیالات آوارہ ہوجاتے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن کی ایسی چیزیں بھی یاد آجاتی ہیں جنہیں آپ ماضی میں معمول سمجھ رہے ہوتے ہیں!

تنہائی میں جب آپ کسی کو یادکرتے ہیں، اور دل سے یاد کرتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ یکدم آپ کے پاس پہنچ گیا ہو۔۔۔۔۔۔

یہاں میں لسی یا چھموس کا سوچتا ہوں تو اس اپنائیت کے ساتھ کہ منہ میں چھموس یا لسی کا ذائقہ اصلاً آجاتا ہے۔ کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی، یہ یادیں انسان کو ماضی کی طرف لیجاتی ہیں، اور یہ یاد دلاتی ہیں کہ کبھی زندگی آسان تھی۔ پیچیدگیاں کم تھیں۔ محبتیں تھیں۔ خلوص تھا۔ اب ہر چیز کی کمی ہے۔ یا پھر یوں کہیے کہ جواہرکی کمی ہے، اور ظواہر کی بہتات۔

یہ ایک انوکھی قسم کی غربت ہے۔

نہیں معلوم گاوں میں لسی کا ذائقہ وہی ہے یا پھر بدل گیا ہے؟ نہیں معلوم اب چھموس اُسی قدرتی، نامیاتی، انداز میں بنائی جاتی ہے، یا پھر گندھک اور دیگر غیر نامیاتی مرکبات شامل ہوتی ہیں۔

خیر، اگر چھموس اور لسی میں گندھک شامل ہوبھی جائے تو مداوا ہوسکتاہے۔ اُس گندھکی تیزاب کا کیا کیا جائے تو خیال کے نام پر زہرِ زرد کی طرح سماج کے بدن میں سرایت کرنے کے بعد نفرت پھیلانے میں مصروف ہے؟ 

اس تیزابی بدبودار نفرت کو چھموس اور لسی کی طرح پھینکا بھی نہیں جاسکتا، ذائقہ پسند نہ آنے پر! 

- آوارہ خیال


مکمل تحریر >>