Wednesday, January 13, 2021

امریکی سیاست میں بھونچال کی کیفیت، صدر ٹرمپ کا مواخذہ ہوگا؟

 امریکی سیاست میں گزشتہ چند دنوں سے ایک بھونچال برپا ہے۔ ایوان نمائندگان پر ٹرمپ نواز جتھوں کے حملے کے بعد حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی پر ہر طرف سے سب و شتم کی بارش ہورہی ہے۔ ٹرمپ کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس کی مخالفت میں بولنے لگے ہیں۔ 

ڈیموکریٹ پارٹی اور بہت سارے میڈیا اداروں کا نائب صد مائیکل پینس سے یہ مطالبہ رہا ہے گزشتہ کچھ دنوں سے کہ وہ آئین کے تحت صدر کو چلتا کردے۔ تاہم نائب صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ ان کے مطابق جس قانون کے تحت صدر کو نکالنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس کا اطلاق صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب صدر جسمانی یا ذہنی امراض کو شکار ہونے کے بعد اپنے فرائض سرانجام دینے کیقابل نہ رہے۔ 

دوسری طرف ڈیموکریٹ پارٹی، جس کے امیدار جوزف بائیڈن نے صدارتی انتخاب جیت لیا ہے، کانگریس میں ایک ایسی قرار داد پیش کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیا جاسکتاہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی صدر ٹرمپ کو ایک مرتبہ پہلے بھی امپیچ کر چکی ہے، مگر سینٹ سے منظوری نہ ملنے کی وجہ سے ماضی میں صدر ٹرمپ
کو نہیں ہٹایا جاسکا۔ 

سپیکر نینسی پیلوسی نے آج ہی نو اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کو صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تیاری میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ تیاریاں اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اب بھی ممکن ہے کہ صدر اپنے عہدے سے نہ ہٹے۔ ویسے بھی صدر ٹرمپ کی صدارت کے آٹھ دن باقی ہیں۔ تاہم دوبارہ مواخذے کی صورت میں صدر ٹرمپ مستقبل میں صدر بننے کے لئے نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ ان مراعات سے بھی محروم ہوجائے گا جو سابق امریکی صدور کو میسر ہوتی ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک امیر آدمی ہے، اس لئے اسے شائد مراعات کی محرومی سے زیادہ فرق نہ پڑے، مگر اس کی علامتی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ 

اس ساری صورتحال کا پس منظر کچھ یوں کہ صدر ٹرمپ کے حمایتیوں نے، جو ملک کی مختلف ریاستوں میں دارالحکومت واشنگٹن میں اکٹھے ہو گئے تھے، ریاست میں جمہوری و سویلین بالادستی کی علامت سمجھے جانے والی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب اندر کانگریس کے اراکین صدر بائیڈن کی جیت کی توثیق کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کانگریس صدر جو بائیڈن کی صدارت کی توثیق نہ کرے، کیونکہ ان کے مطابق انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ تاہم تمام پچاس ریاستوں نے صدر جو بائیڈن کے جیت کی توثیق ہے، جس کی وجہ سے ان الزامات کی اہمیت زیادہ نہیں ہیں۔

شکست تسلیم نہیں کرتے ہوے صدر ٹرمپ نے اپنے حمایتیوں کو واشنگٹن ڈی سی (دارالحکومت) میں اکٹھا ہونے کا کہا۔ اس دوران ان پر اشتعال انگیز تقریر کرنے اور مظاہرین کو ورغلانے کا الزام ہے۔ ان کی تقریر کے بعد مظاہرین کانگریس کی عمارت کی طرف روانہ ہوگئیاور حفاظتی حصار کو توڑتے ہوے عمارت میں داخل ہوگئے۔ اس دوران افرا تفری پھیل گئی، جس کے باعث منتخب اراکین کانگریس کو بھاگ کر اپنی جان بچانا پڑی۔ 

اس دھاوے کے دوران گولی چلنے سے ٹرمپ کی حمایتی خاتون جان بحق ہوگئی، جبکہ ایک پولیس والا بھی زخموں کی تاب نہ لا کر مارا گیا۔ ہنگامے کے دوران طبی وجوہات کے باعث تین دیگر افراد بھی جان بحق ہوگئے۔ 

حملے کے بعد ملک بھر میں ان حملہ آور جتھوں کو دہشتگرد قرار دے کر ان کے خلاف کاروائیاں ہورہی ہیں۔ جتھوں میں شامل درجنوں افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیا جارہا ہے، جبکہ دیگر افراد کی شناخت اور ان کی گرفتاریوں کا سلسلسہ پورے ملک میں جاری ہے۔ جتھے میں شامل کم از کم ایک ریاستی سطح پر منتخب رہنما نے اپنے عہدے سے استعفی دیا ہے۔

اس واقعے نے پورے امریکہ کے جمہوریت پسندوں اور ترقی پسند سوچ رکھنے والوں میں شدید مایوسی اور غصہ پھیلا دیا ہے،
اور صدر ٹرمپ کے مواخذے کے مطالبات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ 

امریکی افواج (آرمی، میرینز، ایر فورس اور نیوی) کے سربراہان نے ایک کھلیخط کے ذریعے دارالحکومت پر حملے کو غداری اور بغاوت قرار دیتے ہوے آئین کی بالادستی یقینی رکھنے کے لئے سیویلین حکومت کی ہدایت کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

 کھربوں کا کاروبارے کرنے والے اداروں نے بھی اس حملے کی مخالفت کرتے ہوے نہ صرف صدر ٹرمپ بلکہ ان کی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی کی حمایت اور مالی اعانت سے ہاتھ کھینچنے کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ بہت سارے اداروں نے ٹرمپ کے ساتھ کاروباری معائدے ختم کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، مثلاً ٹوئیٹر اور فیس بُک) نے صدر ٹرمپ پر اشتعال انگیزی پھیلانے اور لوگوں کو ورغلانے کا اعلان کرتے ہوے ان کے اکاونٹس بند کر دئے ہیں۔ ان بندشوں کی افادیت اور ان کے دور رس نتائج پر ایک بحث بھی جاری ہے۔ ناقدین کا کنہا ہے کہ چند پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی سربراہِ مملکت پراس طرح کی پابندیاں نصب کرے۔ جرمن کی چانسلر نے بھی ٹویٹر اور فیس بک کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ 

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ امریکہ میں شدت پسند دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں میں انتہائی مقبول ہیں۔ ان گروہوں میں وائیٹ سپریمیسسٹس (سفید فاموں کی بالادستی پر یقن رکھنے والے)، فاشسٹس، نیو نازی (جرمنی کے ہٹلر کے فکری پیروکار) اور اسلام اور مسلمانوں، یہودیوں کی مخالفت کرنے والے افراد شامل ہیں۔ ان میں ایسے افراد اور گروہ بھی شامل ہیں جو نسلی بنیادوں پر خود کو دیگر تمام نسلوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افرادکو امریکی سیکیورٹی ادارے گزشتہ کئی برسوں سے امریکی نظام حکومت و معاشرت کے لئے خطرہ قرار دیتے آئے ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنے بیانات اور پیغامات کے ذریعے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے آئے ہیں، اور ان کے خلاف بیانات دینے سے بھی مسلسل کتراتے رہے ہیں۔

تاہم کانگریس کی عمارت پر حملے کے بعد انہوں نے بھی میڈیا کے دباو کے تحت ان حملوں کی مذمت کرتے ہوے اپنے حمایتیوں کو گھر جانے کی صلاح دی تھی۔ لیکن خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب بھی صدر ٹرمپ کے حمایتی گڑبڑ پھیلاسکتے ہیں۔ 

20 جنوری کو صدر جو بائیڈن کی حلف بندی ہورہی ہے، جس کے لئے واشنگٹن میں سیکیورٹی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی سمیت متعدد سیکیورٹی اداروں نے ایک آپریشن کا آغاز کردیا ہے تاکہ واشنگٹن شہر کو حلف برداری کی تقریب کے لئے محفوظ بنایا جاسکے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حمایتی 20 جنوری کو دوبارہ اشتعال انگیزی کرسکتے ہیں۔ 


مکمل تحریر >>

Saturday, January 09, 2021

تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ

عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت سے احساس ہورہا ہے کہ سکول کے  دس سالوں اور کالج و یونیورسٹی کے چھہ سالوں میں جتنا سیکھا جاسکتا تھا، وہ نہیں ہوسکا۔ 

علم البشریات میں دلچسپی کے باعث عموماً انسانی تہذیبوں کے بارے میں مطالعہ کرتا ہوں، اور ہر مطالعے کے ساتھ اپنی جہالت اور سطحی علمیت کی ایک نئی جہت سے آگاہ ہو جاتا ہوں۔ کاش ایسا نہ ہوتا، اور ہمیں سکول کے زمانے سے ہی کم از کم بنیادی معلومات فراہم کی جاتی، اور ہمیں ڈنڈے کے زور پر اسباق ازبر کروانے کی بجائے سیکھنے کی صلاحیت سکھائی جاتی۔ 

ہم معاشرتی علوم کے نام پر ایسی معلومات حفظ کرتے رہے جن کا ہمارے خطے سے، ہمارے معاشرے سے،زیادہ لینا دینا نہ تھا۔ تاریخ کے نام پر ہمیں کچھ واقعات اس طرح پڑھائے جاتے رہے کہ ہم انہی کو مطلق سچ سمجھ بیٹھے اور اس عمل میں فکری آلودگی کا شکار ہوگئے۔ 

تاریخ کے نام پر ایک محدود سمجھ پیدا کی گئی، سیاسی ضروریات کے تحت، جبکہ مذہب اور تہذیب کے نام پر ہمیں میٹھے اور کڑوے انداز میں نفرت سکھائی گئی۔ 

ہم میں سیکھنے، پرکھنے، سوچنے، اور سمجھنے کی محدود صلاحیت ایک انتہائی منظم اور مربوط نظام کے تحت اس طرح سے پیدا کی جاتی تھی کہ ہم ایک دائرے میں ہی گھوم کر خود کو "عالم" و "فاضل"، "پڑھا لکھا" تصور کر لیں۔ 

گلگت بلتستان کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ گلگت بلتستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں تاریخ ساز اور حیرت انگیز کہانیاں مدفون ہیں۔ یہاں ہڈور، داریل، تانگیر اور دیگر تمام علاقوں میں ہزاروں سالوں کی تہذیب کے مظاہر کھلی فضا تلے موجودہیں، مگر ہمیں سکولوں میں ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں پڑھایا گیا۔ شائد ہماری تاریخ اور تہذیب کو اس قابل نہ سمجھا گیا، یا پھر ہمیں علم و دانش کے قابل نہ سمجھا گیا۔ وجہ جو بھی ہو، ہم میں سے زیادہ تر جاہل رہے اپنے اور اپنے علاقے کے بارے میں۔ 

یہ علاقہ جسے ہمیں اپنا کہتے ہیں، کبھی بکٹیرین تہذیب کا حصہ رہا، کبھی سیتھین اور کبھی سوگدین۔ کبھی یہاں کاشانیوں کا زور رہا اور کبھی خُتن والوں کا۔ لیکن عین ممکن ہے کہ ہم میں سے بہت ساروں کو یہ نام بھی عجیب و غریب اور "غیر مقامی" لگیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم انہی ماضی کی تہذیبوں سے کسی نہ کسی حوالے سے جُڑے ہوے ہیں، اور جنہیں ہم آج  اپنی ثقافت اور زبان کہتے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ انہی تہذیبوں کی دین ہے۔ 

اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں کوئی اور، گم گشتہ و گم شدہ، تہذیب کے امین آباد ہیں، جن کے بارے میں سائنس اور تاریخ کو معلوم ہی نہیں۔

فکری تجسس کی کمی کے باعث ہم یہ بات اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اجسام نئے ہیں، مگر جنہیں ہم اپنے افکار کہتے اور سمجھتے ہیں وہ بہت پرانے ہیں۔ ہماری زبانوں کی مثال لیجئے، جن کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ہے۔ 

تاریخ کو مذہب کے نقطہ نگاہ سے دیکھ کر ماضی سے نفرت کرنا یا ماضی کے بارے میں متجسس نہ ہونا ہماری فکری استعداد کی محدودیت کا مظہر نہیں تو اور کیا ہے؟ 

آج اگر آپ گلگت بلتستان کے اوسط طلبہ و طالبات سے ان کے علاقے کی تاریخ و تہذیب اور سماج و معاشرت کے بارے میں سوال کریں گے تو آپ کے خیال میں کتنے بچوں اور نوجوانوں کو ان حقائق سے آگاہی ہوگی؟ کوئی ولاگر (ویڈیو بلاگر) اگر گلگت اور دیامر کی سڑکوں پر، یا کسی بھی ضلعے کی سڑکوں، پر نکل کر لوگوں سے ہمارے اپنے اضلاع اور دیہات، ماضی کی ریاستوں، کے بارے میں سوالات پوچھے تو کتنے لوگوں کے پاس درست معلومات ہونگیں؟

مجھے اس حوالے سے کوئی خاص خوش فہمی نہیں ہے، کیونکہ میں اس تعلیمی نظام سے گزر کر آیا ہوں۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, May 05, 2020

قبرستان اپارٹمنٹ



کراچی میں رہائش کے دوران ایک روز ہمیں ڈائمنڈ پلازہ نامی بلڈنگ میں واقع اپارٹمنٹ سے نکل جانے کا حکم ملا۔ فوراً دوسرے گھر کی تلاش شروع ہوگئی۔ مالی حالت اچھی نہیں تھی، اسلئے بلڈنگ میں اپارٹمنٹ نصیب نہ ہوا۔ نتیجتاً تلاش بسیار کے بعد لسبیلہ چوک (سگنل) پر واقع نعمان مسجد کے عقب میں ایک قبر نُما مکان میں منتقل ہونا پڑا۔ چھوٹے سے مکان میں ہم تقریباً آٹھ افراد رہ رہے تھے۔ ایک نسبتاً بڑا کمرہ تھا، جس کے سامنے، داخلی دروازے کے قریب، 4 * 10 کا ایک کمرہ تھا۔ عمارت میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ چھت کے قریب ایک طرف ایک مستطیل روشندان موجود تھا۔

اس عمارت میں رہائش ہماری زندگی کاتلخ ترین تجربہ تھا۔ بجلی چلی جانے کی صورت میں گرمی اتنی بڑھ جاتی تھی کہ رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ ایک باتھ روم اور ایک کچن اپارٹمنٹ (نہ جانے کیوں اس مکان کو اپارٹمنٹ لکھتے ہوے میری ہنسی نکل جاتی ہے) میں موجود تھا، مگراتنا چھوٹا کہ اندر داخل ہونے پر قبر کی اندھیری رات کا تجربہ ملتا تھا۔

غسل خانے کے ساتھ ایک اور مسلہ بھی تھا۔ یہ رہائشی کمرے کی فرش سے تقریباً ایک فٹ اوپر (نہ جانے کس فلسفے کے تحت) تعمیر کیا گیا تھا۔ اور اس پر قیامت یہ تھی کہ باتھ روم کا ٹِن سے بنا دروازہ نیچے سے اسطرح کھلا ہوا تھاکہ اگر کوئی فرش پر لیٹ کر دیکھتا تو اندر جاری تمام کاروائیاں نظر آتی تھیں۔

باقی صورتحال آپ خود سمجھ سکتے ہیں!

جون یا جولائی کی ایک رات گرمی اتنی شدید تھی کہ قبرستان اپارٹمنٹ کی فرش اور اس کی دیواریں بھی تندور کی طرح گرم ہوگئی تھیں۔ بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ ہم لوگوں نے باہمی مشاورت سے عمارت کی چھت پر چڑھ کر سونے کا ارادہ کرلیا۔
چھت پر پہنچے تو متاثرین گرمی کی ایک بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود تھی۔ ہم بھی ٹٹولتے ٹٹولتے جگہے ڈھونڈ کر لیٹ گئے۔ صبح اُٹھ کر دیکھا تو ہمارے ارد گرد سونے والوں میں وہ افراد بھی موجود تھے جو چاندنی چوک (گارڈن ویسٹ) میں ایک تندور پر کام کرتے تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ہم بھی اسی عمارت میں رہتے ہیں تو بہت خوش ہوے۔ ان سے واقفیت بہت ساروں کی تھی کیونکہ نان روٹی ہم انہی کے تندور سے لاتے تھے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شہید ذولفیقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (زیبسٹ) میں تیسرے یا چوتھے سمسٹر کا طالبعلم تھا۔

گھر میں رہائش کے دوران پڑھائی کا تصور کرنا بھی محال تھا، اسلئے رات گئے تک تعلیمی ادارے کے کمپیوٹر لیب اور لائبریری میں بیٹھ کر پڑھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس دوران لیب میں کام کرنیوالے ملازموں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ دیر تک یونیورسٹی میں رہنا میری ضرورت اور مجبوری ہے، تو انہوں نے اعتراض کرنا چھوڑدیا، بلکہ ان کے ساتھ اچھی خاصی دوستی بھی ہوگئی۔

انہی دنوں ہمیں کمپیوٹر پروگرامنگ کا ایک کورس پڑھایا جا رہا تھا۔ میں نے پروگرامنگ سیکھنے کے لئے ایک کمپیوٹر خریدا۔ خریداری کے چند دنوں بعد گھر پر ڈکیتی کی کوشش ہوئی، جسے ہمارے ایک دوست نے شور مچا کر ناکام بنادیا۔ اس خوف سے کہ دوبارہ ڈکیتی ہوگی اور کمپیوٹر ہاتھ سے نکل جائے گا، میں نے کمپیوٹر پیک کر کے اپنے محفوظ رکھنے کیلئے رشتہ دار کے گھر رکھوا دیا۔
چار مہینے تک شائد اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کا تلخ تجربہ ہوا۔ سمسٹر کی طوالت بھی اتنی ہی تھی۔ نتیجہ آیا تو چھ میں سے چار کتابوں میں "ڈی" گریڈ حاصل ہوا تھا، یعنی نمبرات 60 سے 70 کے درمیان تھے۔ پاس ہونے کیلئے کم از کم سی (70 فیصد) حاصل کرنا لازمی ہوتا تھا۔ رزلٹ خراب ہونے کی وجہ سے آغا خان ایجوکیشن سروس والوں نے سکالر شپ کی رقم روک دی، جسے وہ ہر سمسٹر کے آخر میں رزلٹ کی جانچ کے بعد جاری کرتے تھے۔ اگلے سمسٹر میں محنت کر کے کامیابی حاصل کر لی تو سکالر شپ دوبارہ بحال کردی گئی۔

کئی مہینے تک اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کے بعد ہمیں گارڈن ویسٹ میں ہی "علی نگر" نامی عمارت میں ایک اپارٹمنٹ مل گئی۔

نئے اپارٹمنٹ میں متنقلی کی تڑپ اتنی تھی کہ مقررہ تاریخ پرہم صبح نہار بوری بستر ایک سوزوکی میں لاد کر علی نگر کے باہر پہنچ گئے۔ اپارٹمنٹ کے مکین ابھی گھر میں ہی موجود تھے، اور چند دنوں کا وقت مانگ رہے تھے۔ مکینوں کا تعلق بھی ہنزہ کے ایک علاقے سے تھا، اس لئے ہم نے اپنا سامان اپارٹمنٹ کے اندر ہی ایک کمریمیں منتقل کیا اور راضی ہوگئے کہ وہ چند دنوں کے بعد عمارت چھوڑ سکتے تھے۔ ہمارے چند روم میٹس نے البتہ سامان سمیت اسی کمرے میں متقل ہونے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ "قبضہ" مل جائے۔ ہم نے دو یا تین دن دوستوں کے ساتھ ان کے گھروں میں قیام کیا۔

چند روز بعد ہم مکمل طور پر اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے، اور یوں ہمیں اس عذاب سے نجات ملی۔

آج فیس بُک پر علی نگر اپارٹمنٹ کی ایک تصویر دیکھی جس میں عمارت کے باہر ایک ایمبولینس کھڑی ہے۔ تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا گیا ہے کہ عمارت میں کورونا وائرس کا کوئی مریض موجود ہے۔

تصویر دیکھ کر یہ فلم خیال سینیما میں تیزی سے چل پڑی۔

مکمل تحریر >>

Thursday, March 05, 2020

عورت مارچ،سینگ اور دُم

پہاڑی علاقے سے تعلق ہے۔ جب میں بچہ تھا (دل اب بھی بچہ ہے) تو ہماری خوبصورت وادی میں بعض مرد کھیتوں، دکانوں اور دفتروں میں کام کرتے تھے۔ بعض ان تینوں میں سے کسی ایک جگہ اور بعض کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ زیادہ تر عورتیں کھیتوں، مویشی خانوں، کیاریوں میں کام کرنے، پہاڑیوں پرسے جلانے کے لئے لکڑی لانے، بچوں کی دیکھ بھال کرنے، کھانا پکانے، کپڑے دھونے، جھاڑو پونچھا کرنے کے بعد بھی "دن بھر کچھ نہ کرنے" کے طعنیسنتی تھیں۔
"آخر تم دن بھر کرتی کیا ہو"، ایک ایسا مکرر سوال تھا جو ہمارے گھروں اور خاندانوں میں روزانہ نہیں تو ہفتے میں ایک بار خواتین سے ضرور پوچھا جاتا تھا۔
اس ماحول میں پروان چڑھنے کے بعد بچپن سے ہی ہمارے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ عورتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں، وہ کام نہیں ہے۔ اصل کام تو مرد کرتے ہیں، پھر چاہے وہ دن بھر آوارہ گردی ہی کیوں نہ ہو!
میں نے کراچی میں پانچ سال "چھڑا لائف" گزارنے کے بعد اسلام آباد میں سات سال "نیم چھڑا" لائف گزارا، مگرمحکمہ کچن میں میری کارکردگی صفر تھی۔ کراچی میں چھوٹے بھائیوں نے مدد کی، اور اسلام آباد میں بھائیوں اور بہنوں نے۔ کچن میں میری اپنی ذاتی صلاحیت نوڈل پانی میں ڈال کر ابالنے اور چائے بنانیتک محدود تھی۔

نیو یارک شہروارد ہونے کے بعد ابتدا کے کچھ مہینے بیروزگاری کے تھے۔ اکا دکا کام مل جاتا تھا چند گھنٹوں، دنوں، کیلئے۔ باقی وقت ایک

مسلسل بیکاری۔ اس بیکاری کے عالم میں بھی لیکن گھر کے باورچی خانے میں ہاتھ بٹانا میری ترجیحات میں شامل نہ تھا۔ "یہ عورتوں کا کام ہے" والا نظریہ، میری تمام "عقلی، فکری و علمی دلیلوں" کے باوجود بھی کسی چور کی طرح خیال سینیما کے کونے کھدروں میں بیٹھے مجھے باروچی خانے سے دور رکھ رہا تھا۔ (اس کا احساس بعد میں ہوا)۔
بیوی بیچاری دفتر جاتی، وہاں سے آنے کے بعد کھانا بناتی، بچوں کو کھلاتی، برتن دھوتی تھی اور تین بچوں (بشمول اس کے جس کا دل اب بھی بچہ ہے) کے نخرے الگ سے برداشت کرتی تھی۔
میرے ذمے ایک کام تھا۔ بڑے بیٹے کو سکول لیجانا (20منٹ کی واک) اور دوپہر کو اسے واپس لانا۔ ایک روز معمول کے مطابق بیٹے کے ساتھ گھر پہ موجود تھا۔ کوئی مہمان بھی آیا ہوا تھا۔ بیوی دفتر سے واپس آئی، اور کچن میں چلی گئی۔ کچھ لمحوں کے بعد شکایت بھرے لہجے میں کہا، "آپ نے کچرہ بھی باہر نہیں پھینکا ہے اب تک۔ آتش فشاں پھٹ پڑا۔ میری مردانگی پر چوٹ پڑی تھی شائد۔ "میں کیوں لیجاوں؟ یہی کام رہ گیا ہے میرا؟"۔ وہ خاموش رہی (شائد اسلئے کہ گھر میں مہمان موجود تھا)۔ میں باروچی خانے سے نکل بیٹھک میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اپارٹمنٹ کا داخلی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ آواز سُن کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ بیوی کچرا کچن سے اُٹھائے چار منزلہ عمارت کے عقب میں موجود کچرے خانے تک لے گئی ہے۔
بیچاری ابھی دفتر سے آئی تھی، اور ابھی ہی کچرہ لئے چار منزل نیچے چلی گئی۔ اتنا کچھ تو کر رہی ہے ہم سب کے لئے۔ اگر میں کچرہ لیجاتا باہر تو کونسی قیامت آجاتی۔ ذہن میں سوالات گونجنے لگے۔ ندامت کے احساس نے شدت سے گھیر لیا۔
کافی دنوں، اور گفتگو کے مختلف ادوار، کے بعد گاوں میں گزارے بچپن کے دن اور ان سے جڑی یادیں اور احساسات یاد آگئے۔ خیال آیا کہ گاوں اور خاندان میں بھی تو یہی ہوتا ہے۔ دن بھر گھر میں کام کرنیوالی عورت کی مدد کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ہے۔ عورت کھیت میں آلو بھی اگارہی ہے، گندم کو پانی بھی دے رہی ہے، کیاریوں میں سبزیاں بھی اُگا رہی ہے۔ اور سب یہی توقع لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ عورت ہی تمام کام کرنے کے بعد گھر جاکر کھانا پکائے گی اور دیگر تمام امورِ خانہ داری سرانجام دے گی۔
ان حالات میں عورتوں پر جتنا دباو پڑتا ہے اور اس دباو کے جو اثرات پڑتے ہیں ان کی کئی مثالیں میں بہت قریب سے اپنے بچپن میں دیکھا چکا تھا۔ اور مجھے ان مثالوں سے ہمیشہ الجھن ہوتی تھی۔ اس سماجی مزاج کو بچپن میں پسند نہ کرنے کے باوجود بھی میں خود اسی سماجی ڈگر پر چل پڑا تھا۔ یادوں پر شائد وقت نے غبار ڈال دیا تھا!
لڑکپن میں ایک دن امی نے کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کا حکم دیا۔ میں نے تکمیل سے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر بعد امی خود کام نمٹا کر واپس آئی۔ میں یونہی بیٹھا ہواتھا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا، "دیکھ رہی تھی کہ فضول بیٹھے رہنے کے بعد تمہارے سر پر اب تک سینگ نکل آئے ہیں یا نہیں۔" امی کے کاٹ دار جملے نے مجھے پریشان کردیاتھاکچھ لمحوں کے لئے، لیکن ان کی طنزیہ مسکراہٹ نے ہنسا بھی دیا تھا۔
جانوروں کے سروں پر سینگ خوبصورتی اور رعب اور رتبے کی علامت ہوتے ہیں۔ مارخور کے سینگ ہی اس کی اصل شان ہیں۔ ورنہ مارخور اور دوسرے بکروں میں کوئی زیادہ فرق تو نہیں ہوتا! امی کے جملے میں موجود سر پر سینگ نکل آنے والے محاورے کا مقصد یہ تھا کہ فارغ بیٹھنے سے بندے کی عزت نہیں بڑھتی۔
میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ عورتوں سے ہماری توقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ہم اگر فکری اور عقلی، دلیلی، سطح پر ان کی مدد کرتے بھی ہیں تو امورِ خانہ داری کے عملی میدان میں آکر ارادی و غیر ارادی طور پر ہمارے ہاتھ پتھر اور پیر شل ہوجاتیہیں۔ اور اگر ہم گھر میں کچھ کام کرے بھی تو رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پوری امت پر احسان کر رہے ہیں

عورت مارچ کو گالیاں شوق سے دیں۔ گالیوں کی تربیت آپ کو نامور محقق، دانشور، لکھاری، فلسفی، ہدایتکار و تجزیہ نگار خلیل الرحمن قمر کی اقدار، تہذیب اور شائستگی بھری باتوں سیمفت مل سکتی ہے۔ عورت مارچ کے ہر جملے کے ساتھ آپ کا اور ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن یہ کہنا بھی غلطہ ہے کہ عورتوں کو اپنی زندگی پر اختیار نہیں ہونا چاہیے، اور انہیں اپنے حق میں بولنے، لکھنے، چیخنے اور چلانے کا حق نہیں ہے۔ ہم اور آپ، سب، جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں صنفی مساوات فکری سطح پر ہوں بھی تو عملی سطح پر صفر ہے۔
مارچ میں شامل ہونے کے لئے بیشک سڑکوں پر مت نکلیں۔ پوسٹرز بھی مت بنائیں۔ بینرز بھی مت بنائیں۔ لیکن اپنے، اپنے خاندانوں، اور اپنی سماج کے رویے پر غور کرنے کی کوشش میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔
یہاں آمد کے چند ماہ بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دھیرے دھیرے امورِ خانہ داری میں حصہ لوں گا۔ برتن دھونے سے شراکت کا آغازکیا۔ ہمت بڑھی تو چند کوششوں کے بعد کھانا پکانا بھی کسی حد تک سیکھ گیا۔ بچوں اور گھر کی صفائی میں بھی ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔
فارغ اوقات میں بعض دفعہ بے اختیاری کے عالم میں اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر دیکھتاہوں کہ سینگ تو نہیں نکل آئے ہیں، اور کبھی کبھار پیچھے ہاتھ پھیر کر بھی دیکھتا ہوں کہ کام کرنے کی وجہ سے دُم تو نہیں نکل آئی ہے!

آوارہ خیال (نیویارک، 4 مارچ 2020)

مکمل تحریر >>