Wednesday, February 28, 2018

ہاتھ سے نکل جائیں گی ۔۔۔۔

یہ ایک منفی سوچ کا حامل طبقہ ہے جو اپنے تئیں معاشرے کا خیرخواہ ہے، لیکن ہر دور میں مخالفت میں ڈٹا رہا ہے۔ اس طبقے کا تعلق کسی فرقے، علاقے یا ذات اور قبیلے سے نہیں، بلکہ یہ ایک منفی طرزِ فکر کے حامل افراد کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی سماجی گروہ میں موجود ہوسکتا ہے۔

ہمارے علاقے میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پہلے (ستر اور اسی کی دہائی میں) کہتے تھےکہ بچیوں کو مت پڑھاو۔ خراب ہوجائیں گی۔ اب بہت کم گھرانے ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دینا معیوب سمجھتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں تو کوئی بھی گھر ایسا نہیں جہاں لڑکیاں سکول یا کالج نہیں جاتی ہو!

پھر کہنے لگیں، بچیوں کو نوکری کرنے کی اجازت مت دو، خراب ہوجائیں گی۔ ہمارے گاوں میں اسی کی دہائی میں کچھ ہونہار خواتین نے نرسنگ کے شعبے کو اپنایا تو سرگوشیوں میں اور کبھی کھلے عام شکوک و شبہات کا اظہار شروع ہوگیا۔ اب حالت یہ ہے کہ سب کوششیں کررہے ہیں کہ کسی طرح ہماری بیٹی بھی ڈاکٹر یا پھر نرس بن جائے!

پھر کہنے لگیں، بچیوں کی شادی ان کی مرضی سے مت کرو۔ خراب ہوجائیں گی۔ دھیرے دھیرے یہ بھی بات سمجھ میں آگئی کہ اپنی مرضی سے شادی کرنے میں کوئی اخلاقی یا مذہبی قدغن نہیں ہے۔ آج زیادہ تر کہتے ہیں کہ بیٹی کی مرضی ہے، جہاں شادی کرے۔ نفع نقصان کی ذمہ دار خود ہے۔

پھر کہنے لگیں، بچیوں اور عورتوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع مت دو، خراب ہوجائیں گی۔ دھیرے دھیرے مان جائیں گے کہ خیالات کے اظہار کا حق ہر انسان کے پاس ہے۔ آپ ان سے اتفاق بے شک نہ کریں، لیکن زبان بندی کا زمانہ گزر گیا ہے۔

پھر کہنے لگیں بچیوں کو کھیل کود اور تفریح میں حصہ مت لینے دو، خراب ہوجائیں گی۔ آج بہت ساروں کی دبی دبی یا کھلی خواہش ہے کہ ان کی بیٹی بھی ثمینہ بیگ، ملائکہ، ڈیانا بن جائے!

یہ طبقہ ہمیشہ سے ہی ترقی اور تبدیلی میں منفیت دیکھتا اور اسے اجاگر کرتا آرہا ہے۔ یہ معاشرے کے مخالفین نہیں ہیں، سماجی ترقی کے بھی قائل ہیں، لیکن خواتین سے متعلق ان کا نقطہ نظر مختلف اور منفی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ان کی مخالفت کے باوجود گلگت بلتستان کی بیٹیاں ڈاکٹرز، نرسز، کوہ پیما، پائلیٹس، سیاستدان، دانشور، عسکری اور دیگر مسلح اداروں کی آفیسرز، اندرون و بیرون ملک قوی و عالمی اداروں کی اعلی منتظمین، عالمی شہرت یافتہ اتھلیٹس، معیشت کے ماہرین، زباندان، معلمہ، سافٹ وئیر انجینئرز، سماجی سائنسز کی ماہرین، آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی یونیوورسٹیوں میں پڑھ کر سائسدان اور سائنس کی استانیاں بن چکی ہیں ۔۔۔۔۔ اور ابھی ان کے آگے آسماں اور بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔

مخالفت کی اس روش کے پیچھے یوں تو ایک انجانا سا خوف ہے۔ ہاں، البتہ اس خوف کا کم از کم ایک پہلو یہ کہ  انہیں ڈر ہے کہ "خواتین ہاتھ سے نکل جائیںگی" ۔ اس جملے میں بہت سارا فلسفہ اور تاریخ پوشیدہ ہے۔

مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان مخالفین کو عورتوں کے ہاتھ سے نکلنے کے ڈر سے زیادہ ہے صنفی عدم توازن پر مبنی سماجی نظام پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑنے کا ڈر ہے۔

سماجی تبدیلی کبھی کبھار خوفزدہ بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر خوف کو رد کر کے اُمید کا دامن تھاما جائے اور ترقی کو سماجی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے تو تبدیلی کے اس اٹل سفر میں درپیش مشکلات بہت حد تک کم ہوسکتی ہیں۔
مکمل تحریر >>

Sunday, February 25, 2018

الزام



مجھ پہ الزام ہے کہ آخر تک 
میں نے اک شخص سے محبت کی 
مکمل تحریر >>

Sunday, January 28, 2018

کل رات ننگا پربت پر انسانی بہادری، قربانی اور بے بسی کی ایک اور تاریخ رقم ہو گئی

رات بھر دنیا کی نگاہیں ننگا پربت پر مرکوز تھیں، جہاں بہادری، قربانی اور انسانی بے بسی کی ایک اور تاریخ رقم ہو گئی۔

پولینڈ اور فرانس سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیما "قاتل پہاڑ" کے نام سے مشہور خوبصورت مگر انتہائی دشوار گزار ننگا پربت پر پھنسے ہوے تھے۔ بیس کیمپ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ روابط منقطع ہو چکے تھے۔

فرانس سے تعلق رکھنے والی خاتون کوہ پیما الزبتھ اکیلے نیچے کی طرف سفر کر رہی تھی، کیونکہ اوپر جانا ناممکن تھا۔ الزبتھ کا ساتھی کوہ پیما تومش میکسیوویچ تاحد نظر پھیلے انتہائی سفید اور دھوپ میں شدت سے چمکنے والے برف کی وجہ سے اندھا پن کا شکار ہو چکا تھا، اور اس کے پاوں اور ہاتھ بھی سرما زدگی کی وجہ سے سُن ہو چکے تھے۔ چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اسی لئے خاتون نے اکیلے ہی نیچے جانے کی کوشش شروع کر دی تاکہ اپنے ساتھی کی زندگی بچانے کے لئے کمک حاصل کر سکے۔ خاتون کی اپنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ ان کے پاوں کی انگلیاں بھی سرمازدگی کا شکار ہوچکی تھیں۔

ادھر پاک فوج اور دیگر حکومتی ادارے تلاش اور بچاو کا کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن موسم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ پورا دن کوششیں کرنے کے بعد چار کوہ پیماوں، جو کے ٹو سر کرنے کی خواہش لئے بلتستان میں موجود تھے، کو شدید موسمی حالات اور خطرات کے باوجود فوجی ہیلی کاپٹر میں ننگا پربت کے دامن میں کامیابی سے اتار دیا گیا۔

یہ کوہ پیما کے ٹو بیس کیمپ سے رضاکارانہ طور پر روانہ ہوے تھے، اور ان کا ایک ہی مقصد تھا، ننگا پربت پر پھنسے ساتھی کوہ پیماوں کو بچانا۔تلاش اور بچاو کی اس خطرناک مہم میں شامل ہونا ان کا فرض نہیں تھا، لیکن انہوں نے اسے اپنا فرض بنایا، اور اس خطرناک مہم میں شامل ہو کر اپنی جان جوکھوں میں ڈال گئے۔ ایک انسان کی زندگی بچانا، پوری انسانیت کی زندگی بچانے کے متراف جو ٹہرا۔

فوجی ہیلی کاپٹر میں کے ٹو بیس کیمپ سے ننگا پربت کے دامن میں 4900 میٹر کی بلندی پر اترنے کے بعد دو بہادر کوہ پیماوں، ڈینس اٰروبکو اور ایڈم بئیےلیکی نے رات کی تاریکی میں ننگا پربت پر چڑھنا شروع کردیا۔

رات کے اندھیرے میں جب درجہ حرارت منفی 40 کے لگ بھگ ہو، قاتل پہاڑ، جسے سر کرنے کی کوشش میں درجنوں کوہ پیما جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، پر عمودی رُخ چڑھنا انتہائی پُر خطر کام ہے، لیکن یہ دو بہادر کوہ پیما اپنے ساتھیوں کی جان بچانا چاہتے تھے، اس لئے خطرات کو خاطر میں لائے بغیر اوپر جارہے تھے۔

پانچ گھنٹے کی مسلسل اور غیر معمولی جدوجہد کے بعد دونوں انتہائی تیز رفتاری سے خونی چٹانوں، متحرک برف، سرکتے پتھروں اور سینکڑوں فٹ گہرے کھائیوں سے خود کو بچاتے بارہ سو میٹر کی بلندی عبور کر گئے۔ 6100 میٹر کی بلندی پر ان کی نیچے جانے کی کوشش کرنے والی خاتون کوہ پیما الزبتھ سے ملاقات ہوگئی۔

اوپر چڑھنے والے دونوں کوہ پیما مصنوعی سیاروں کی مدد سے پوری دنیا کے ساتھ منسلک تھے، اور ان کی نقل و حرکت پر سب کی ںظریں تھی۔ یوٹیوب اور متعدد دیگر ویب سائٹس پر براہ راست ان کے سفر کی لائیو سٹریمنگ کچھ اس انداز میں ہورہی تھی کہ ہر چند میٹر کے بعد لوگوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ اب وہ کہاں پہنچ گئے ہیں۔

خاتون کوہ پیما سے ملنے کے ڈینس اور ایڈم نے اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ اب مزید اوپر چڑھنا خطرات سے خالی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے سود بھی ہے، کیونکہ اونچائی پر پھنسے ہوے کوہ پیما تومش، جو ننگا پربت کے عشق میں مبتلا تھا، اور اسے چھ بار سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کرچکا تھا، (یہ تصویر ان کی ہے)، کو بچانا ناممکن ہے۔

مزید اوپر نہ چڑھنے کا فیصلہ اصولی ضرور تھا، مگر معمولی نہیں۔ اعصاب شکن۔ کیونکہ، خاتون کوہ پیما جب نیچے اترنے لگی تھی، تو اس وقت تومش زندہ تھا۔

اوپر نہ جانے کا مطلب تھا تومش کو منہ کے موت میں چھوڑ دینا، اگر وہ زندہ ہے تو۔

ان دونوں کوہ پیماوں نے پوری دنیا سے اپنی بہادری اور جفاکشی کے عوض مختلف سوشل میڈیا فورمز پر زبردست دادوتحسین وصول کی۔

کچھ افراد نے مزید اوپر جا کر تومش کی حالت دیکھنے، اور شائد اسے بچانے، کی بجائے نیچے واپس اترنے کے فیصلے پر شدید تنقید بھی کی۔ انہیں لگا کہ تومش کو موت کے منہ میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور اب شائد ان کی موت یقینی ہے۔

یہ ایک انتہائی سخت فیصلہ ہے، لیکن اس فیصلے سے انسان کی بے بسی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھار چاہتے ہوے بھی اچھا کام کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

میری تو اب بھی دعا ہے کہ اللہ کرے کوئی معجزہ ہو اور تومش بچ جائے۔

اور اگر تومش نہ بچ پایا، تو کم از یہ اطمنان ضرور ہے کہ وہ ایک ایسے پہاڑ پر منوں برف تلے دفن ہے، جس سے اُسے جنون کی حد تک محبت تھی، اورجس کو سر کرنا اس کی شدید خواہش تھی۔ 

مکمل تحریر >>

Sunday, January 07, 2018

نیویارک کہانی

رہائش گاہ کے ساتھ ہی یہودیوں کی عبادت گاہ ہے۔ عبادت گاہ کے اندر دینی سکول بھی ہے، جبکہ مختلف تہواروں اور شادی بیاہ وغیرہ کے لئے بھی اسی عمارت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر روز عباد ت گاہ کے باہر درجن بھر لمبی زرد بسوں میں سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو لایا جاتا ہے، جو غالباً دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بچے اور بچیاں عموماً کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔ بچے کالے رنگ کی "نمازی" ٹوپی پہنتے ہیں۔ لڑکے سر کو اوپر سے تو گنجا کرتے ہیں، لیکن بالوں کی دو لمبی چوٹیاں کانوں کے آس پاس جھولتی نظر آتی ہیں۔ مرد اور عورت لمبی کالی عبائیں پہنتے ہیں، جبکہ یہودی مرد مختلف اشکال کی ٹوپیاں بھی پہنتے ہیں۔


میں نے نیویارک پہنچنے کے بعد پہلی بار یہودی مذہب کے پیروکاروں کو دیکھا ہے، اور بعض سے دکانوں میں ہلکی پھلکی کاروباری ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ خاموش اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے محلے میں زیادہ تر افراد یہودی ہیں، جبکہ خاصی بڑی تعداد میں چینی بھی آباد ہیں۔ گورے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔


بلڈنگ میں زیادہ تر "مہاجر" مقیم ہیں۔ مہاجروں میں روسی بھی ہیں، چینی بھی، بنگلہ دیشی بھی، ہندوستانی بھی اور پاکستانی بھی۔

چھوٹے بڑے کاروبار پر چینی اور یہودی چھائے ہوے ہیں۔ نزدیک ہی ایک دکان پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی ہے، جبکہ کچھ فاصلے پر پاکستانی اور بھارتی کھانوں کا ایک ریستوران بھی موجود ہے، جہاں سے تندور کی روٹی جیسی کوئی چیز میسر ہے۔

ایک ہی سڑک پر ایک کلیسا (گرجا گھر)، بدھ مت کے پیروکاروں کا ایک معبد اور یہودی عبادت گاہ موجود ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک مسجد بھی یہاں ہوا کرتا تھا، جو اب تین یا چار کلومیٹر دور واقع ہے۔

گھر سے چند سو قدموں کے فاصلے پر میمونائیڈس میڈیکل سنٹر نامی ہسپتال واقع ہے۔ ہسپتال سو سال قبل ایک ڈسپنسری کی شکل میں شروع کیا گیا تھا، اور بنانے میں کلیدی کردار یہودی خواتین و حضرات کا تھا۔  صاف ستھرا اور بڑا ہسپتال ہے۔ میرا بیٹا جس سکول میں کھیلنے کودنے اور سیکھنے جاتا ہے اس کا بانی بھی کوئی یہودی صاحب ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر شعبہ زندگی میں اہم ، مثبت اور موثر کردار ادا کررہے ہیں، اور اپنی ثقافتی شناخت پر بھی قائم ہیں۔
علاقہ صاف ستھرا ہے۔ سڑکیں کشادہ ہیں۔ پانی ، گیس اور بجلی کا کوئی مسلہ نہیں۔ دو مہینوں کے دوران ایک سیکنڈ کے لئے بھی بجلی بند نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں آدھی زندگی گزارنے والے کے لئے یہ تجربہ حیرت ناک ہے!!

گزشتہ دنوں ایک اپارٹمنٹ میں موجود چولہے میں آگ بھڑکنے سے دھواں بھر گیا۔ کچھ ہی منٹوں میں فائر بریگیڈ کی آٹھ گاڑیاں اور ایمبولینس پہنچ گئے۔ آتشزدگی کا واقعہ بڑا نہیں تھا، لیکن نپٹنے کی تیاری مکمل تھی۔

انٹرنیٹ خاصی تیز ہے۔ چند سیکنڈز میں سینکڑوں ایم بیز کی فائلیں ڈاونلوڈ ہوجاتی ہیں۔

دھیرے دھیرے علاقے اور نظامِ حکومت کے ساتھ شناسائی بڑھتی جارہی ہے۔ گھومنے پھرنے کا فی الحال زیادہ موقع نہیں، کیونکہ سردی شدت کی ہے ۔
مکمل تحریر >>