Sunday, January 07, 2018

نیویارک کہانی

رہائش گاہ کے ساتھ ہی یہودیوں کی عبادت گاہ ہے۔ عبادت گاہ کے اندر دینی سکول بھی ہے، جبکہ مختلف تہواروں اور شادی بیاہ وغیرہ کے لئے بھی اسی عمارت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر روز عباد ت گاہ کے باہر درجن بھر لمبی زرد بسوں میں سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو لایا جاتا ہے، جو غالباً دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بچے اور بچیاں عموماً کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔ بچے کالے رنگ کی "نمازی" ٹوپی پہنتے ہیں۔ لڑکے سر کو اوپر سے تو گنجا کرتے ہیں، لیکن بالوں کی دو لمبی چوٹیاں کانوں کے آس پاس جھولتی نظر آتی ہیں۔ مرد اور عورت لمبی کالی عبائیں پہنتے ہیں، جبکہ یہودی مرد مختلف اشکال کی ٹوپیاں بھی پہنتے ہیں۔


میں نے نیویارک پہنچنے کے بعد پہلی بار یہودی مذہب کے پیروکاروں کو دیکھا ہے، اور بعض سے دکانوں میں ہلکی پھلکی کاروباری ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ خاموش اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے محلے میں زیادہ تر افراد یہودی ہیں، جبکہ خاصی بڑی تعداد میں چینی بھی آباد ہیں۔ گورے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔


بلڈنگ میں زیادہ تر "مہاجر" مقیم ہیں۔ مہاجروں میں روسی بھی ہیں، چینی بھی، بنگلہ دیشی بھی، ہندوستانی بھی اور پاکستانی بھی۔

چھوٹے بڑے کاروبار پر چینی اور یہودی چھائے ہوے ہیں۔ نزدیک ہی ایک دکان پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی ہے، جبکہ کچھ فاصلے پر پاکستانی اور بھارتی کھانوں کا ایک ریستوران بھی موجود ہے، جہاں سے تندور کی روٹی جیسی کوئی چیز میسر ہے۔

ایک ہی سڑک پر ایک کلیسا (گرجا گھر)، بدھ مت کے پیروکاروں کا ایک معبد اور یہودی عبادت گاہ موجود ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک مسجد بھی یہاں ہوا کرتا تھا، جو اب تین یا چار کلومیٹر دور واقع ہے۔

گھر سے چند سو قدموں کے فاصلے پر میمونائیڈس میڈیکل سنٹر نامی ہسپتال واقع ہے۔ ہسپتال سو سال قبل ایک ڈسپنسری کی شکل میں شروع کیا گیا تھا، اور بنانے میں کلیدی کردار یہودی خواتین و حضرات کا تھا۔  صاف ستھرا اور بڑا ہسپتال ہے۔ میرا بیٹا جس سکول میں کھیلنے کودنے اور سیکھنے جاتا ہے اس کا بانی بھی کوئی یہودی صاحب ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر شعبہ زندگی میں اہم ، مثبت اور موثر کردار ادا کررہے ہیں، اور اپنی ثقافتی شناخت پر بھی قائم ہیں۔
علاقہ صاف ستھرا ہے۔ سڑکیں کشادہ ہیں۔ پانی ، گیس اور بجلی کا کوئی مسلہ نہیں۔ دو مہینوں کے دوران ایک سیکنڈ کے لئے بھی بجلی بند نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں آدھی زندگی گزارنے والے کے لئے یہ تجربہ حیرت ناک ہے!!

گزشتہ دنوں ایک اپارٹمنٹ میں موجود چولہے میں آگ بھڑکنے سے دھواں بھر گیا۔ کچھ ہی منٹوں میں فائر بریگیڈ کی آٹھ گاڑیاں اور ایمبولینس پہنچ گئے۔ آتشزدگی کا واقعہ بڑا نہیں تھا، لیکن نپٹنے کی تیاری مکمل تھی۔

انٹرنیٹ خاصی تیز ہے۔ چند سیکنڈز میں سینکڑوں ایم بیز کی فائلیں ڈاونلوڈ ہوجاتی ہیں۔

دھیرے دھیرے علاقے اور نظامِ حکومت کے ساتھ شناسائی بڑھتی جارہی ہے۔ گھومنے پھرنے کا فی الحال زیادہ موقع نہیں، کیونکہ سردی شدت کی ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔