Tuesday, August 01, 2017

ایوان کا تقدس

نو منتخب عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نئے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ وہ خوشی سے قائد ایوان کے عہدے پر براجمان نہیں ہوے  ہیں، کیونکہ ملک میں سیاست ایک گالی بن چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایوان کا تقدس بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ عموماً سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ ہر سیاستدان پر خرد بْرد، بد کرداری  اور سازشی ہونے کے الزامات لگتے ہیں۔انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈر کے مارے ، یا مفادات کی خاطر بعض لوگ ان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں، لیکن دل سے عزت کسی سیاستدان کی بہت کم ہی کی جاتی ہے۔ 

گاڑیوں کی بڑی بڑی قطاروں کے جلو میں کوئی وزیر یا مشیر یا سرکاری افسر کانوائے کی شکل میں سڑکوں سے گزرتا ہے تو آس پاس زبردستی روکے گئے لوگ بے بسی میں گالی دیتے ہوے کہتے ہیں کہ جتنا بڑا ڈاکو، اتنی ہی لمبی پروٹوکول کے گاڑیوں کی قطاریں۔ 

سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کا یہ امیج کیسے بنا؟ کیا عوام جھوٹے ہیں؟ کیا عوام قدر ناشناس ہیں؟ کیا کسی سازش کے تحت سیاستدانوں کا امیج خراب کیا جارہا ہے؟ یا پھر واقعی دال میں کچھ کالا ہے؟ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں عام لوگوں اور ان کے منتخب و غیر منتخب حکمرانوں اور رہنماوں کی زندگیوں کے معیار میں فرق کو دیکھنا ہوگا۔ 

غریب آج بھی بھوکا ہے، جبکہ وزیر لاکھ پتی سے ارب پتی بن چکا ہے۔ غریب اب بھی بارش کے دنوں میں چھت کے نیچے برتن رکھ کر ٹپکنے والے پانی کو سنبھالتے ہوے اپنی قسمت کو کوستا ہے، لیکن اس کا رہنما نکڑکی گلی والے مکان سے نکل کر لندن اور پیرس، دوبئی اور سوئٹرزلینڈ میں کھوٹیوں، فلیٹوں اور جائیدادوں کا مالک بن چکا ہے۔
غریب کے بچے اب بھی ٹاٹ سکول میں پڑھتے ہیں، جبکہ اس کے منتخب و غیر منتخب رہنما اور حکمران کے بچے بیکن ہاوس، گرامر سکول اور لاکھوں روپے فیسوں کی مد میں لینے والے دیگر سکولوں سے نکل کر بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں سیلف فنانس پر پڑھتے ہیں۔ بہت کم ہیں جو قابلیت کی بنیاد پر سکالرشپ لے کر داخلے کا حق حاصل کرتے ہیں۔ 
غریب کے گھر میں آج بھی نلکا نہیں لگا ہے، لیکن اس کے منتخب و غیر منتخب رہنماوں اور حکمرانوں کے گھروں میں آبشاریں بنی ہیں، فوارے لگے ہیں، سوئمنگ پولز بنے ہیں۔ 
غریب سرکاری ہسپتال کے باہر بستر نہ ملنے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے، لیکن اس کا منتخب وغیر منتخب رہنما اپنے علاج کے لئے سرکاری خرچ پر کبھی لندن، کبھی دْوبئی اور کبھی پیرس پہنچا ہوتا ہے۔

غریب کا بچہ آج بھی نامناسب خوراک یا بھوکے کے باعث غذائیت کی کمی کا شکار ہے، لیکن اس کا منتخب و غیر منتخب رہنما شہنشاوں کی طرح رہتا ہے، اور انہی کی طرح کھاتا پیتا ہے۔

غریب کا ذہین و فطین اور لائق و فائق بچہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری نہیں لے سکتا، لیکن اس کے منتخب و غیر منتخب رہنما اور حکمران کا نالائق انوکھا لاڈلا پیسے، دباو اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر بْرے نمبروں کے ساتھ، جعلی ڈگریوں کی طاقت سے، کبھی ڈائریکٹر لگتا ہے تو کبھی کچھ اور۔ 

غریب کا بچہ بھوک کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہوکر پانچ سال سے پہلے مرجاتا ہے، جبکہ اس کے منتخب و غیر منتخب وڈیروں کی ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ کی زمینیں سرسبز و شاداب ہونے اور ٹنوں غلہ اگلنے کے باوجود، غریبوں کے دکھوں کا درمان نہیں کرتی۔ کرب اور درد کا درمان کرنا تو درکنار، بیگار کی شکل میں ان  ننگِ جمہوریت حکمرانوں (وڈیروں) کے وسیع وعریض کھیتوں میں کام کرنے والوں کو ان کی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا۔ غلاموں کی طرح نسلیں گزرجاتی ہیں وڈیروں اور چوہدریوں اور خانوں کی زمینوں کو سونا بناتے بناتے، لیکن اپنے آنگن میں کھلے پھول خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بے وقت و بے موسم مْرجھا جاتے ہیں۔

غریب ڈاکا ڈالتے ہوے پکڑے جاتا ہے تو عوام اسے جلادیتے ہیں، یا پھر پولیس والے اس کی کھال اْتار دیتے ہیں، لیکن اگر اسی غریب کا منتخب و غیر منتخب رہنما ڈاکا ڈالے تو کبھی اس کے اربوں کے قرضے معاف ہوجاتے ہیں، اور کبھی اسے این آر او کی شکل میں بخشش مل جاتی ہے۔

عوام اور حکمران کی معیارِ زندگی میں فرق واضح ہے، اور یہ فرق دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔  خلیج بڑھتا ہی جارہا ہے۔ 

اس حالت کو بدلنے کے لئے ایوان، جس کی تقدیس کے نعرے لگائے جارہے ہیں، نے کیا کیا ہے؟


 کچھ خاص نہیں ۔

حکمران اور حکمران بننے کے خواہشمند سیاستدان اقتدار میں آنے کے لئے تمام اقدار جُوتی کی نوک پر رکھتے ہیں ، اور کرپٹ ترین سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک کو خوشحال بنانے کے خواب بیچتے ہیں۔ 

رہا ایوان، تو عوام کے منتخب (یا بوگس ووٹوں کی مدد سے وجود میں آنے والے) ایوان کا کام بس یہی رہا ہے کہ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کو ریلیف دے، ان کی دولت میں اضافہ کرے، ان کے مفادات کا تحفظ کرے، امیروں کے ٹیکس کم کرے، اور غریبوں پر ہر سال کوئی نیا ٹیکس کسی صورت میں لگا دے۔ اور ہاں، ایوان کا ایک کام یہ بھی رہا ہے کہ اگر کوئی پیٹی بند سیاستدان اپنی کرتوتوں کی وجہ سے قانون کے نرم و نازک شکنجے میں پھنس جائے تو عوامی مینڈیٹ اور ایوان کی تقدیس کے نام پر شور مچائے۔ 

ایوان اور حکومت، جو جمہوریت کے نام پر عوامی مینڈیٹ کے دعووں کے ساتھ وجود میں آتے ہیں، بلدیاتی انتخابات تک منعقد کروانے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح اختیارات غریبوں اور متوسط طبقوں کے ہاتھوں میں جانے کا "خدشہ" لاحق ہوتا ہے۔ عوام کو بااختیار بنانے کے عمل کی مخالفت اسی ایوان میں بیٹھے نام نہاد جہموری حکمران، جو دراصل جاگیر دار، سرمایہ دار، ساہوکار اور دیگر استحصالی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، کرتے ہیں۔ اس روش میں ہمارا ننھا منا گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ یہاں بھی گزشتہ دہائی سے دوجمہوریت کی دعوے دار پارٹیاں بلدیاتی انتخابات منعقد کر کے اپنے اختیارات (اور مالی وسائل پر اپنی گرفت) سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔ 

ایسے غیر جمہوری ، غیر انسانی ، اور غیر مہذب ایوان اور ایسے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے تقدس کا تقاضا عوام سے کیوں کیا جارہا ہے؟ اور ایسے ایوان کی تقدیس پسے ہوے، غیر حکمران، متوسط و غریب طبقات، کے عوام کیوں کرے؟ ایسے ایوان اور حکمرانوں کی حمایت میں عوام کیوں کھڑے ہوں؟ 

اگر ایوان اور مملکت پاکستان کا تقدس بڑھانا ہے، تو ایوان میں بیٹھے رہنماوں، سیاسی پارٹیوں کے عہدیداروں اور ریاستی وجود کے تمام پُرزوں کو اپنی حرکتیں ٹھیک کرنی ہوگی۔ اپنی ترجیحات درست کرنی پڑے گی۔ 


جب تک ایوان کے باہر اور اندر بیٹھے حکمران چوری چکاری، اقربا پروری، ڈکیتی، لوٹ مار، بدمعاشی ، بدنیتی ، غریبوں کا استحصال اور ناانصافی سے گریزنہیں کریں گے، ایوان کی عزت بڑھے گی، نہ ہی ایوان کی تکریم میں اضافہ ہوگا۔  

یہ مضمون  روزنامہ اوصاف (گلگت بلتستان) اور روزنامہ بادشمال میں بھی شائع ہوا ہے۔ 


مکمل تحریر >>

Thursday, July 20, 2017

لواری ٹنلز ۔۔۔۔ منصوبہ جس کی تکمیل میں بیالیس سال لگ گئے

لواری ٹنلز کے اطراف میں ابھی سڑکوں کی تعمیر مکمل ہونی ہے۔ لیکن بہر حال، اس اہم منصوبے کا آج وزیر اعظم نوز شریف کے ہاتھوں افتتاح چترال کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

گلگت میں زیرِ تعلیم ہم جماعت دوستوں، جونئیرز اور اساتذہ کے ذریعے چترال کے ساتھ محبت اور خلوص کا جو ذاتی رشتہ قائم ہوا تھا، وہ روز بروز مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ 

شروع شروع میں انہی کی زبانی اہلیانِ چترال کی سفری مشکلات کے بارے میں معلوم ہوا۔ 

سردیوں کے موسم میں برفباری کی وجہ سے لواری پہاڑ کے اوپر سے گزرنے والی واحد کچی اور انہائی دشوار گزار، خطرناک، سڑک بند ہوجاتی تھی۔ جس کے بعد چترال کے لاکھوں عوام وخواص ضلعے میں محصور ہوجاتے تھے۔ ہوائی سفر پر انحصار کرنا خودفریبی کے مترادف تھا، اور کم آمدنی والے طبقات اس غیر مستقل سہولت سے فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ان حالات میں چترالیوں کو اپنے ملک کے شہر پشاور پہنچنے کے لئے پہلے افغانستان جانا پڑتاتھا۔ 

مجھے یاد ہے کہ میرے ہم جماعت کم از کم ایک دفعہ سردیوں کی چھٹیاں گزار کر براستہ افغانستان پشاور پہنچنے کے بعد بالآخر گلگت پہنچے تھے۔ 

شہید ذولفیقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہونے والا لواری ٹنل منصوبہ 42 سالوں کے بعد مکمل ہوگیا ہے۔ ان بیالیس سالوں کے دوران یہ منصوبہ بارہا تعطل کا شکار رہا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں البتہ کام میں تیزی آئی، کیونکہ انہوں نے سرکاری خزانے کے منہ اس اہم قومی منصوبے کے لئے کھول دئیے تھے۔ ٹنلز سے جُڑی سڑکوں کی تعمیر کے بعد چترال کے عوام وخواص کو سفر کی آسانیاں تو میسر ہونگی ہی، ساتھ ہی ساتھ معیشت کی ترقی کے راستے بھی مزید کشادہ ہوجائیں گے۔ 

پاک چین اقتصادی راہداری کا ایک راستہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے ہوتا ہوا براستہ چترال اپر دیر میں داخل ہوگا اور آگے چکدرہ تک پہنچے گا، جس کے معاشی اثرات بہت جلد نمودار ہونگے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفری تعلقات استوار کرنے کی منزل بھی اب قریب نظر آرہی ہے۔ 

اس اہم خوشی کے موقعے پر میں اپنے چترالی بزرگوں اور دوستوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, July 12, 2017

برتھ ڈے کیک

کل رات بیٹے کے برتھ ڈے کے لئے کیک خریدنے گیا۔ بیکری کے پاس پہنچا تو اندر سے (میرے) ایک آواز آئی، "ابے!! کیوں خرید رہا ہے؟ اکیلے میں کیا کیک کاٹے گا؟ کوئی فائدہ؟ کتنا کھائے گا؟ خراب ہو جائے گا سارا"۔ آواز میں وزن تھا۔ میں کچھ دیر کے لئے رُک گیا۔ 
ابھی میں سوچنے کی کوشش ہی کرنے لگا تھا کہ اندر سے ایک اور آواز آئی۔ "خرید لے کنجوس۔ پیسے بچانے کے لئے ہزار فلسفے نہ جھاڑ۔"

مجھے شرمندگی سی محسوس ہونے لگی۔ اورمیرا خیال ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے میرے چہرے پر سرخی مائل رنگ بھی پھیل گیا، مارے حیا کے۔ وثوق سے البتہ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ رات اندھیری تھی، اور میں فوراً سے سیلفی لے کر اس لمحے کو محفوظ بھی نہ کرپایا۔

خیر، کیک خریدنے کا فیصلہ ہوگیا۔ نام لکھوایا۔ ہیپی برتھ ڈے لکھوایا۔ 3 سال لکھوانے کا کہا، بندے نے صرف تین لکھا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ 

علامتیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

کیک لے کر گھر آگیا، اور اسے فریج میں رکھ دیا، کیونکہ ابھی جولائی کی دس تاریخ تھی۔ اور میرا آیان 11 جولائی کو وارد ہوا تھا۔ بارہ بجے کا انتظار کرنے لگا۔

فیس بک پر دوستوں کے والز دیکھ دیکھ کر وقت گزرہی گیا۔ ہوش آگیا تو ساڑھے بارہ بجنے والے تھے۔
فریج سے کیک نکال کر کاٹنے لگا تو یاد آیا کہ موم بتیاں تو میں لایا ہی نہیں ہوں۔ خود کو چند ثانیوں کے لئے کوسا، اور پھر بغیر موم بتیوں کے ہی کیک کاٹنے کا فیصلہ کرلیا۔

عجیب سماں تھا۔ گھر میں میں اکیلا۔ کیک میرے سامنے، چاقو میرے ہاتھ میں، لیکن نہ آیان سامنے تھا، نہ ہی گھر کے دوسرے لوگ۔ بس کچھ چھپکلیاں تھیں، جو دیوار سے چپکے میری بے بسی کی تصویریں لے رہی تھیں۔ شائد یہ چھپکلیاں اپنی کمیونٹی کے جرنلسٹس ہونگے، اور آج میری تصویریں ان کے قومی اخبار میں شائع ہوئیں ہونگی۔ (اگر ان دیواری چھپکلیوں میں سے کوئی یہ تحریر پڑھ رہا ہے تو پلیز فیس بک پر مجھے وہ تصویریں ان باکس کردیں۔ مہربانی)

اکیلا کیک کاٹنا ایک کٹھن عمل ہے۔ کیک کاٹو تو تالیاں نہیں بجا سکتے، اور تالیاں بجاتے ہوے کیک نہیں کاٹا جاسکتا۔ پھریہ بھی کہ کیک کاٹنےکے بعد ایک ٹکڑا کسی اور کو کھلانے کی بجائے خود کو ہی کھلانا پڑتا ہے۔ اور کیک ملنے کے لئے بھی اپنا ہی چہرہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ نیز، برتھ ڈے گیت گانے والے بھی نہیں ہوتے۔ بہت نازک صورتحال ہوتی ہے، اور تنہائی کا احساس شدت سے غالب آجاتا ہے۔

انہی جذبات کے زیرِ اثر میری آنکھوں سے آنسو کے سیلاب اُمڈ آئے۔ اور میں زارو قطار رونے لگا۔ ہچکیاں بھی آئیں۔ آنکھیں سُرخ ہوگئیں (میں نے شیشے میں خود دیکھا تھا)۔

ابھی میں ہچکیوں کو اور آنسووں کے سیلاب کو سنبھالنے کی کوشش ہی کررہاتھا کہ اچانک، کسی گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کی وجہ سے نکلنے والے سیلابی ریلے کی طرح، ناک سے بھی ایک سیلاب اُمڈ آیا۔ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا، اور سارے کیک کا ستیاناس ہوگیا۔

سبق: اگر اکیلے اکیلے کسی کا برتھ ڈے کیک کاٹنا ہو، تو زیادہ جذباتی مت بنو۔ اور اگر جذباتی بننا ہی ہے، تو براہِ کرم ٹشو پیپر، رومال، یا تولیہ ساتھ رکھو۔ تاکہ کیک کا بیڑا غرق نہ ہو۔
مکمل تحریر >>

Saturday, July 08, 2017

کامیاب محبت کا المیہ ۔۔۔۔۔

میرے اشارے پر پیلی ٹیکسی رُکی۔ اندر زور و شور سے "دے دے پیار دے پیار دے پیار دیدے" یو ایس بی سے جڑے پلئیر پر چل رہا تھا۔
فربہی مائل، چھوٹے قد کے ڈرائیور نے ایک کالے رنگ کا چہرے سے چپکا ہوا چشمہ پہنا تھا۔ ایک شانِ بے نیازی سے میری طرف دیکھا، اور سر سے ہلکا سا اشارہ کیا۔ میں نے منزل کا بتایا، اور زور و شور سے سفر کا آغاز ہوگیا۔
ایک کے بعد دوسرا گانا، پھر تیسرا، اور پھر چوتھا۔ پرانے زمانے کے گانے سن رہا تھا۔ بچپن یاد آگیا، جب ٹیپ ریکارڈر یا ریڈیوپر یہ فلمی گانے سنتے تھے۔
"ویسے تو آپ اب بھی جوان ہیں، لیکن لگتا ہے کہ کوئی عشق وشق کا چکر ضرور رہا ہے جوانی میں"، میں نے چھیڑنے کے انداز میں پوچھا۔
"اوئے، پین دی ۔۔۔۔۔۔ اگر عشق وشق دا چکر نہیں ہوتا تو میں اس وقت امریکہ میں بیٹھا ہوتا"، کافی جذباتی انداز میں انہوں نے جواب دیا۔
"اچھا!! ناکام ہوگیا؟"
"نہیں بھائی۔ کامیاب ہوگیا۔ اسی لئے اب گھر بیٹھ کر ٹیکسی چلا رہا ہوں"، اس نے جواب دیا۔
اس کے بعد کار میں صرف فلمی گانے چلتے رہے۔

ہم دونوں خاموش رہے۔ ایک دوسرے سے نظریں تک نہیں ملائیں۔
مکمل تحریر >>