Saturday, July 08, 2017

کچھ سیکھو ان ٹیکسی والوں سے

کراچی کمپنی میں واقع روہتاس روڑ پر 36 نمبر کی گلی کے نزدیک پہنچ کر ہم موڑ مڑنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک انتہائی تیز رفتار سلور کلر کی بڑی سی پراڈو(ٹی زیڈ) پیچھے سے آگئی، اور ہماری چھوٹی سی بیچاری ٹیکسی کو تقریباً روندتے ہوے خطرناک طریقے سے بائیں جانب مڑ گئی۔

بوڑھا ٹیکسی ڈرائیوربوکھلا گیا۔ گاڑی کو سنبھالتے ہوے پراڈو سواروں کی ماوں اور بہنوں کو موٹی اور فحش گالیاں دیں، اور ساتھ ہی دونوں ہاتھ ہوا میں اچھال کر گویا گالیوں کی شدت میں اضافہ کیا۔


لینڈ کروزر والے ہماری گالیوں کی رینج سے آگے نکل گئے تھے۔ بلکہ میرا گمان ہے کہ ہم چھوٹے لوگوں کی بوکھلاہٹ پر ٹی زیڈ میں سوار بندوں نے زوردار قہقہہ ضرور لگایا ہوگا۔


"بڑے لوگ ہیں۔ بڑی گاڑیاں ہیں۔ ان کے نخرے کم نہیں ہونگے"، میں نے کہا۔


"لیکن بیٹا، آخر کب تک؟ اب پاکستان کو ترقی کرنی چاہیے"، پسینے میں شرابور بوڑھا ٹیکسی ڈرائیور فلسفیانہ انداز میں گویا ہوا۔


واقعی، ہمیں ترقی کی ضرورت ہے۔ فکری، تہذیبی اور تمدنی ترقی کی۔

مادی ترقی ایک سیڑھی ہوسکتی ہے، منزل نہیں۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, June 20, 2017

بزرگوں کے نام ایک سلامِ عقیدت


سماجی ترقی یقینی بنانے کے لئے مضبوط اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور مضبوط اداروں کے قیام کے لئے مستحکم، مسلسل اور مربوط ارادے ناگزیر ہیں۔

زیر نظر تصویر میں ہمارے گاوں کے بزرگ اور جوان سیمنٹ کی ایک بیم (ستون) کو اُٹھا کر زیر تعمیر عمارت کے اوپر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ عمارت اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی گئی تھی۔ گاوں کے لوگوں نے مزدوری بھی بغیر معاوضے کے کی۔ زمین خریدنے کے لئے پیسے بھی خود ہی اکٹھے کئے۔ کچھ لوگوں نے زمین کا عطیہ بھی دیا۔

آج یہ الامین ماڈل سکول کے نام سے محدود وسائل کے ساتھ ہمارے علاقائی پس منظر میں بہترین تعلیمی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

الامین کے سینکڑوں فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پاکستان کے کونے کونے کے علاوہ دنیاکے مختلف ممالک میں پھیلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں۔

سکول کو قائم ہوے پچیس سال گزر چکےہیں۔

مجھے اس سکول میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن اس کی تعمیر میں ایک بچے کی حیثیت سے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوے کام کرنے، لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے، کا شرف ضرور حاصل رہا ہے۔

سوچتا ہوں کہ ہمارے بزرگ، جن میں سے آئے روز کسی کی موت واقع ہوتی ہے، ان تنگ گھاٹیوں اور وادیوں میں دنیا سے کٹے رہنے کے باوجود بھی وسیع النظر، دور اندیش اور یکجا تھے۔ انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود ایسے ادارے بنائے جن سے آنے والی کئی نسلیں مستفید ہونگی۔

ان بزرگ رضاکاروں اور رہنماوں کے نام سلامِ عقیدت۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, March 14, 2017

ریاست، مامتا اور ہم

ریاست اگر ماں ہے تو شہری ریاست کے بچے ہیں۔ اگر ماں بچوں کے وزن کے حساب سے وسائل بانٹنا شروع کرے تو کمزور ترین کے حصے میں کچھ بھی نہیں آئے گا، اور جو سب سے زیادہ قوی و توانا ہے، وہ سارے وسائل کا حقدار کہلائے گا۔
ہم گلگت بلتستان کے باسی بھی ایک ریاست کا حصہ ہیں، اور اپنے حقوق کی خاطر عرصہ دراز سے سرگرداں ہیں۔ ہماری طرح دیگر صوبوں میں بھی چھوٹے چھوٹے بچے موجود ہیں۔
ہم کم وزن بچوں کو ایسا لگتا ہے کہ ماں موٹوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے، حالانکہ زیادہ خیال داری کی ضرورت ہم ناتوانوں کو ہے۔

ہم ماں کی توجہ اپنی حالت زار کی طرف دلاتے ہیں تو ماں ڈنڈا لے کر مارنے دوڑتی ہے، کہتی ہے تمیں خاندان کی عزت اور استحکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے، خودغرضی کا شکار ہو، اور پڑوس میں رہنے والوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی گھر کے خلاف سازش کر رہے ہو۔ حالانکہ ہم تو ماں کی محبت اور اپنائت کے بھوکے ہوتے ہیں، اور چیخ کر ان کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ توجہ مل جاتی ہے، لیکن محبت نہیں ملتی۔


ہونا تو یہ چاہیےکہ ماں تمام بچوں کو یکساں پیار، محبت اور توجہ کا مستحق سمجھے اور بچوں کی ضروریات کے مطابق وسائل بانٹے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی امید کی کرن نظر آرہی ہے۔


مردم شماری کی ہی مثال لییجئے۔ چھوٹے بچوں کی آوازوں (زبانوں) کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر نالہ لئی میں بہادیاگیا ہے، جبکہ بڑے بچوں کی آوازوں کو پوری توجہ سے سنا جارہا ہے۔

کیا ماں سے منصفی کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے؟
مکمل تحریر >>

Thursday, March 09, 2017

عالم جان دریا کی وخی شاعری کا اردو ترجمہ


De Yakshambi Ce Mʉlken Kʉch Kərtem
Fikr-e-Dunyo Ya Khu Gul Nay Dishetkem
Niyeṣ̌kem Dem Wʉyin Saari Ghoron
Niyeng niv girya-e-pʉrsʉz kertem
یک شنبہ کو میں ملک سے کوچ کرگیا فکرِ دنیا تو میں جانتا ہی نہیں ہوں غاران کی چوٹی چڑھ کر کر بیٹھ گیا ہوں اور گریہ پرسوز کر رہا ہوں

Ye Bʉlbʉl-e-Mast Rʉyi Bʉstonet
Ye Gʉl-e-Gʉlob Da Gulistonet
Ye Nargisi Mast Da Tobistonet
Yinoti ẓ̌ʉnen Hoor-o-Pari Wing
اے مست بلبل، تم خوبصورت باغ کا حسین چہرہ ہو اے گلِ گلاب، تم گلستان کی شان ہو اے مست نرگس، تم تابستان کی خوبصورتی ہو میرا خواب ہے حوروں اور پریوں کو دیکھنا
Hadem Dʉnyoi Nast Hechkʉy Halaker
Amol-e-hisobi nast thagida neṣ̌aker
Nezdi jon, khʉshem dem bʉ ror jawoni
Jawoni to wakht maar nasti halaker
دنیا میں دائم کوئی نہیں رہنے والا اعمال کا حساب ہونا اٹل ہے کچھ دیر رُک جاو، جاتی جوانی میں خوش ہوں جوانی نے کونسا ہمیشہ میرے ساتھ رہنا ہے Cem khoke biwafoni nasle inson
Nasti kʉy halaker dem Odamiston Yem insoni yʉpket rakhniγ̌ harkigh
Yem hawoyi saker spo dard-e-darmon
نسلِ انسانی اس بیوفا خاک سے اُٹھی ہے لیکن اس آدمستان میں کوئی ہمیشہ نہیں رہنے والا انسان تو آگ اور پانی کا مرکب ہے   اور یہ ہوا ہمارے درد کا علاج ہے
Qadri oshiqiyeṣ̌ ki kʉy thaag ne disht Ye shirin sado γ̌afch nodonev yemisht Dem Dʉryowe nasib zakhet chiririsht Yem boghbon khizmati khʉb dem gʉliston
جس شخص نے عشق کی قدر نہیں جانا اے شیرین صدا، ایسا شخص بڑا نادان ہے باغبان نے گلشن کی خوب آبیاری کی لیکن، دریا کے نصیب میں کانٹے اور جھاڑیاں ہیں (شاعر: عالم جان دریا، ترجمہ: نور پامیری)
مکمل تحریر >>