Monday, April 30, 2018

ایسی غیرت پر لعنت

بچی ماں کی چھاتی سے اس طرح لپٹی ہوئی ہے کہ چہرہ ماں کی طرف ہے اور سر ماں کے بائیں بازو پر ہے۔ ماں اور بچی کے سر آپس میں ملے ہوے ہیں۔ چھوٹی سی بچی ہے۔ پاوں ماں کے سینے کے قریب ہیں۔

جوانسال ماں کے چہرے پر پراسرار سی خاموشی ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ ساتھ ہی باپ لیٹا ہوا ہے۔ باپ کاچہرہ اپنی بیوی اور بچی کی طرف ہے۔ پشت کے بل سیدھا لیٹا ہوا ہے، یا لٹایا گیا ہے۔

کمبل، چادروں اور کپڑوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے سے تعلق ہے۔

باپ کا جسم خون میں تر ہے۔ بازو اور جسم کے دیگر مقامات پر زخموں کے نشان بھی موجود ہیں۔ بستر بھی خون سے تر ہے۔

ماں کا جسم سبز رنگ کے چادر یا کمبل ڈھکا ہوا ہے، اس لئے زیادہ خون نظر نہیں آرہا، لیکن خون کے کچھ دھبے سبر چادر کے اوپر نمایاں ہیں۔

بچی کے جسم پر خون کے نشان نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن بچی ساکت ہے۔ پشت دیوار کی طرف، اور منہ ماں کی طرف۔

تصویر دھندلی سی ہے۔ شائد کسی پولیس والے نے کم معیار والے موبائل کیمرے سے تصویریں لی ہیں۔ جی، بہت ساری تصویریں ہیں۔ ان تصویروں کو بغور دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ تینوں کو سفاکیت کے ساتھ قتل کیا گیا ہے۔

یہ تصویریں بٹہ گرام کے ایک گاوں میں لی گئی ہیں۔

مقتول میاں اور بیوں کچھ عرصہ قبل پسند کی شادی ملکی قانون کے مطابق کرنے کے بعد جان بچانے کے لئے ضلع دیامر کے علاقے تھور سے فرار ہو کر اس گاوں میں روپوش ہو گئے تھے۔ ان کی زندگیوں کو خطرہ تھا۔ کیونکہ خاتون کا رشتہ پہلے سے کسی شخص کے ساتھ ہوچکا تھا، مگر وہ اس شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ ایک ہی راستہ نظر آیا کہ پسند کی شادی کر کے علاقہ چھوڑ دیا جائے۔ خطرات سے ضرور آگاہ ہونگے، لیکن پسند کی شادی کر کے وہ خوشی کے خواب دیکھ رہے تھے۔



پھر ان کے ہاں ایک پھول سی بیٹی بھی پیدا ہوئی۔ کنبہ بڑھ گیا۔ وقت گزرتا گیا، اور میاں بیوی خود کو شائد محفوظ سمجھنے لگیں۔

لیکن وہ بھول گئے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ قبائلی نظام میں جکڑے افراد کا انتقام لینے کا جذبہ اور ان کی نفرت کم نہیں ہوتی۔

پھر وہی ہوا، جس کا سب کو ڈر تھا۔



کسی مخبر نے اس تین رکنی کنبے کی اس دور افتادہ گاوں میں موجودگی کی خبر غصے اور انتقام کے جذبے میں تپتے افراد تک پہنچا دی۔

درندہ صفت ظالم بدلے کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے پہنچ گئے۔ چوروں کی طرح گھر میں گھسے اور اس زندگی کے متلاشی، محبت کے رشتے میں بندے تین رکنی کنبے کو سفاکیت سے قتل کیا۔ ایک تصویر سے ایسا لگتا ہے کہ باپ کو تشدد کا بہانہ بھی بنایا گیا ہے، کیونکہ ہاتھ کے نزدیک بازو کا اوپری حصہ غائب ہے۔

یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ ایک خونریز داستان ہے، انسانی زندگی کی بے حرمتی اور شدید حقارت اور نفرت کے اظہار کی۔

کچھ دن پس منظر میں رہنے کے بعد خبر اب سامنے آئی ہے۔ انصاف سب مانگ رہے ہیں، لیکن منصفی کی توقع کم لوگوں کو ہے۔ کیونکہ یہاں انصاف کی کال پڑی ہوئی ہے۔ سرمایہ داروں اور بااثر افرادکے ہاتھوں میں انصاف کے ادارے رکھیل بن جاتے ہیں۔

میں تصویریں دیکھ کر کانپ گیا۔ بچی کی تصویر نے تو گویا فرزانگی میں مبتلا کردیا۔ اپنے دو سالہ بیٹے کو سینے سے لگایا اور اس کے گال پر بوسہ دیا۔

ان مقتولوں کا قصور کیا تھا؟

پسند کی شادی کرنا؟ کونسا مذہب زبردستی شادی کروانے کا درس دیتا ہے؟

کورٹ میرج کرنا؟ کیا آئین پسند کی شادی کرنے والوں کو قتل کرنے کاحکم دیتا ہے؟

قابئلی نظام؟ کیا قبائلی نظام مذہب اور ملکی آئین سے مقدم اور اعلی ہے؟ کب تک غیرت کے نام بربریت کا یہ کھیل چلتا رہے گا؟

ایک سالہ بچی کا کیا قصور ہے؟

مجھے جواب نہیں ملا۔ کوئی جواب یا جواز ہو بھی نہیں سکتا۔ بس غیرت کے لبادے میں نفرت اور جہالت کا سفاک اظہار ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔