Thursday, November 19, 2015

دلائل، حقائق، تحقیق اور "بڑی تصویر"

بہت سال پہلے وادی یاسین، ضلع غذر (گلگت بلتستان) کے انتہائی خوبصورت گاوں درکوت جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ سکول سے موسم گرما کے دوران پکنک پر جانا معمول تھا۔ ہم نے درکوت کا انتخاب کیا تھا، کیونکہ سننے میں آیا تھا کہ بہت دلکش جگہ ہے، اور گلیشرز کے بہت قریب واقع ہے۔ پہنچے تو دیکھا کہ جیسے سنا تھا اس سے زیادہ حسین، دلکش اور خوبصورت علاقہ ہے۔ لوگ بھی بہت سادہ، محنت کش اور مہمان نواز تھے۔
اس پکنک کے دوران کچھ مقامی بچوں سے بات چیت بھی ہوئی۔ ہم نے اپنی "علمیت" کی دھاک بٹھانے کے لئے ان کی معلومات کریدنے کی کوشش کی۔ ان سے مختلف موضوعات پر سوال پوچھے اور غالبا چند ایک کو درست جواب دینے پر پانچ، یا دس روپے انعام کے طور پر بھی دئیے۔ امید ہے کہ اس پکنک کے دوران موجود دیگر دوستوں کو بھی یہ واقعہ ضرور یادہوگا۔

ایک بچے سے ہم نے پوچھا کہ پاکستان کی سب سے بلند چوٹی کونسی ہے۔ اس نے کچھ سوچ کر گاوں کے جنوبی حصے میں واقع ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کیا، اور کہا کہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی چوٹی ہے۔ ہم سب ہنس دئیے۔ اور اسے بتایا کہ نہیں جناب۔ پاکستان کی سب سے بڑی چوٹی کے ٹو ہے۔
بعد میں اُس بچے کے جواب پر غور کیا تو اس کی بات معقول لگی۔ غالبا اس بچے نے ابھی کے ٹو کے بارے میں پڑھا نہیں تھا۔ گاوں سے باہر زیادہ گیا بھی نہیں ہوگا۔ تو اس کے لئے کل کائنات گاوں کی پہاڑی چاردیواری ہی تھی۔ جس میں ایک طرف سفید اور لمبے پھیلے ہوے گلیشر تھے اور باقی اطراف میں دیو ہیکل پہاڑ اور ان میں بہتے چھوٹے بڑے ندی نالے۔

لڑکے نے جس پہاڑ کی طرف اشارہ کیا تھا، وہ ان کے گاوں کا سب سے بڑا پہاڑ تھا۔

بچے کی بات میں بظاہر لوجک (منطق) تھی، لیکن اس کا جواب غلطہ تھا، کیونکہ اسے ارد گرد، اور دنیا کے دوسرے حصوں کے بارے میں معلومات بھی حاصل نہیں تھیں۔

بہت سارے لوگوں کے کمنٹس،ان کے تجزئے اور تبصرے پڑھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں درکوت میں اس بچے کے سامنے حاضرہوں اور اس کی بات دوبارہ سن رہا ہوں۔

ہم میں سے بہت ساروں کی باتیں، آرا، تبصرے غلط نہیں ہوتی ہیں، لیکن آزاد ذرائع سے دیگر حقائق کے بارے میں معلومات نہیں ہونے کی وجہ سے ہم اپنی کم علمی کی بنیاد پر نامکمل یا ناقص معلومات کی روشنی میں دلائل تخلیق کرتے ہیں، اور پھر انہی دلائل پر گویا ایمان لاتے ہیں اور باقی کی زندگی انہی دلائل اور "حقائق" کے دفاع اور ترویج میں صرف کردیتے ہیں۔

عموما یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارا مطالعہ بھی ایک خاص دائرے میں ہی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہم تحقیق اور تخلیق کے عمل میں شامل ہونے کی بجائے پڑھائے گئے "حقائق" کے حق میں دلائل جمع کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور پھر نقالی اور تکرار کے ذریعے "علم" پھیلانے کے عمل میں خود کو شامل سمجھتے ہیں۔ شائد اسی لئے ہم عصر حاضر کے معاملات کو معروضی طور پر سمجھنے اور ان کے حل کی طرف بڑھنے سے قاصر ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔