Friday, November 01, 2013

گلگت بلتستان: ڈوگروں سے ٹھوکروں تک

یکم نومبر ١٩٤٧ کی رات کو گلگت سکاوٹ کے جوانوں نے منصوبے کے تحت گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتارکرنے کی کوشش شروع کر دی. صبح تک ایک نوجوان کی شہادت کے بعد وہ اس مقصد میں بالاخر کامیاب ہو گئے. کامیابی کے نعرے گونجے. ڈوگرہ راج کا خاتمہ ہوا. آزادی کا اعلان کیا گیا. ریاست گلگت کا پر عزم قیام عمل میں آیا. صدرکا انتخاب ہوا. انقلابی کونسل وجود میں آیا. پندرہ دنوں تک یہ ریاست قائم رہی اور پھر پاکستان کا پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم خان گلگت میں وارد ہوا، جسکا گلگت سکاوٹ کے جوانوں اور انقلابی کونسل کے نمائندوں نے استقبال کیا.
گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کے پہلے شہید کی آخری آرامگاہ. تصویر بشکریہ پرویز میر 
١٦ نومبر ١٩٤٧ کو اس طاقتور پولیٹیکل ایجنٹ (جو عہدے کے لحاظ سے تحصیلدار تھا) نے نومولود ریاست کا خاتمہ کر دیا. صدر صاحب نے سول سپلائیز میں ایک عہدے پر کام کرنا شروع کر دیا. 

اس دوران گلگت سکاوٹ کے جوانوں کی جنگ جاری رہی. انہوں نے ایک سال تک لڑنے کے بعد تقریبا ٢٧٠٠٠ (ستائیس ہزار) مربع میل کا علاقہ آزاد کیا اور اسے پاکستان کی جھولی میں غیر مشرو ط طور پرڈال دیا. اس نو آزاد شدہ علاقے کو بعد ازاں پاکستان نے "شمالی علاقہ جات" کا نام دیا.

اسکے بعد کے حالات سب کے سامنے ہیں. پاکستان نے ریاست گلگت کا خاتمہ تو کچھ لمحوں میں کر دیا لیکن متبادل نظام حکومت دینے میں اب تک مکمل طور پر ناکام رہا ہے. عوام کو پیکجز دے دے کر سلایا جا رہا ہے. اتنا ضرور ہوا ہے کہ ٦٣ سال بعد اس علاقے کو "شمالی علاقہ جات" سے "گلگت بلتستان" بنا دیا گیا ہے اور ایک نام نہاد اسمبلی دی گئی ہے، جس کے اراکین نے تین سالوں میں کرپشن کے عالمی ریکارڈز قائم کیے ہیں. 

مختصر یہ کہ جنگ آزادی میں جو خون اور پسینہ بہایا گیا تھا اسکے نتیجے میں یہاں کے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوا. نہ سماجی ترقی ہو سکی، نہ انصاف کا نظام قائم کیا جا سکا. امن و امان کی حالت اتنی خراب ہے کہ سینکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں لیکن مجرم آزاد پھر رہے ہیں. فرقہ واریت اس علاقے کے مکینوں میں مسلسل پروان چڑھ رہی ہے اور اب لوگ قوم کی بات کرتے بھی ہیں تو فرقہ وارانہ اور گروہی مفادات اور عزائم کی تکمیل کے لیے.

آج یکم نومبر ہے اور ہم لوگ جشن آزادی منا رہے ہیں یا پھر آزادی کے کچھ دنوں کو، آباءواجداد کی جدوجہد، انکی قربانیوں کو نیم دلی کے ساتھ یا پھر جوش و خروش سے یاد کر رہے ہیں. یہ الگ بات ہے کہ اب "جشن آزادی" کی بات کرتے ہی گلگت بلتستان کے نوجوان اپنی آیئنی اور سیاسی محرمیوں کا ذکر چھیڑتے ہیں اور پاکستان کے حکمرانوں کو لعن طعن کرتے ہیں جنہوں نے اس خطے کو ایک آئینی گرداب میں میں پھنسا دیا ہے.، یا پھر بقول شاعر ... نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن والی صورتحال میں ڈال دیا ہے.

کل رات فیس بک پر ایک محترم دوست افتخار ملک نے بہت خوبصورت انداز میں گلگت بلتستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ کو چند الفاظ میں بیان کردیا. انہوں نے کہا، "جشن آزادی گلگت بلتستان : ڈوگروں سے ٹھوکروں تک". میں ان سے اتفاق کرتا ہوں. ہمارا سفر ٹھوکروں سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے.

2 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

ڈوگروں سے گداگروں تک

Anonymous نے لکھا ہے کہ

اے سخن ور و قلم کار
بس کچھ اور انتظار
آیے گی بہار
تارو من کو قرار
اے پربت و سبزہ زار
گل و گلزار
آے گی بہار

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔