Thursday, March 21, 2013

جوس کے تین ڈبے - حصہ دوئم

سفر شروع ہوتے ہی میں نے ڈرائیور سے میوزک چلانے کی فرمائش کی۔ اس نے یو ایس بی (USB) نکال کر ڈیش بورڑ پر بنے ایک سوراخ میں لگا دیا۔ کچھ چھوٹی روشنیاں ایک کالی سطح پر نمودار ہوئیں اور تھوڑی دیر میں انیس و نوے کی دہائی کا ایک مشہور گانا "آئے ہو میری زندگی میں تم بہار بن کے " زور و شور سے بجنا شروع گیا۔ ٹیکسی بھی وہی تھی۔ باہر ماحول بھی فلمی سا تھا۔ پہلے پہل تو میر دل جھومنے لگا اور پھر میں خود بھی ہلتے ہلتے دھیرے دھیرے جھومنے لگا۔ یہ الگ بات کہ ٹیکسی بھی ایک جھولے ہی کا کردار ادا کر رہا تھا۔

ایک بات کا اعتراف کر لینے دے۔ یہ گانا سنتے ہوے تھوڑی دیر کے لئے میں خود کوفلم "راجا ہندوستانی" کا عامر خان سمجھ بیٹھا۔ اصل فلم میں تو عامر خان ٹیکسی چلا رہا ہوتا ہے، لیکن یہاں میں نے تھوڑی ردوبدل کر کے "ہیرو" کو ڈرائیور کے پہلو میں بٹھا دیا۔ اتنی رعایت تو خود کو بہر صورت دینی ہی چاہیے۔

خیر، سفر جاری تھا اور گانا جوبن پر تھا کہ پیچھے سیٹ پر بیٹھے صاحب نے گلا کھنکھار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ پہلی دفعہ ہم پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا تو دوسری دفعہ اس نے زیادہ زور کے ساتھ گلا صاف کیا اور ساتھ ہی ایک مانوس سی زبان میں اپنے ساتھ موجود خاتون سے کچھ کہا۔ تھوڑی دیر تک انکی گفتگو سننے کے بعد مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ شینا زبان بول رہے تھے۔

میں نے پیچھے مڑ کے کہا، "چاچا آپ گلگت کے ہیں"۔ اس نے کہا، "ہاں نا۔ میں گلگت کا ہے۔ یہ میری بیوی ہے"۔ میں نے ان کو بھی سلام کیا اور انہوں نے سر ہلا کر جواب دیا۔ میں نے پوچھا کہ وہ گلگت کس جگہے کے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ضلع دیامرسے تعلق رکھتے ہیں۔ "تم کدھر کا ہے؟"، چاچا نے پوچھا۔ "میں بھی گلگت کا ہوں چاچا"۔ "گلگت کس جگہے کا ہے؟"۔ میں نے بات مختصر کرنے کے لئے کہا کہ گلگت شہر سے میرا تعلق ہے۔ "شینا بول سکتے ہو"، انہوں نے سوال کیا۔ میں نے کہ تھوڑی بہت سمجھ میں آتی ہے اور غفور چلاسی، جابر، غلام نبی ہمراز اور جان علی کے کافی سارے گانے مجھے زبانی یاد ہیں۔ "تو پھر یہ گانا کیوں سنتا ہے؟ اپنا علاقے کا گانا سنو نا!"، انہوں نے فورا سے جواب دیا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس موبائل میں کچھ گانے ہیں۔ انہوں نے کہا، "سناو"۔ ٹیکسی میں روان موسیقی کی آواز تو ہم نے پہلے ہی کم کروادی تھی۔ اب بند کروادی اور شینا گانے سننے لگے۔ "سینئے بٹیس گا نوم دین مئے پتہ کھجے گے تو"۔ کچھ بند سننے کے بعد چاچا کو اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ زور زور سے ہنسنے لگے۔ ہنستے ہنستے انہوں نے کہا کہ یار دفعہ کرو۔ وہ اردو گانا ٹھیک ہے۔

ٹیکسی کی موسیقی پھر سے چالو کر دی گئی۔ اس وقت تک ہم ایک پیٹرول پمپ کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔ چاچا نے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کی فرمائش کی۔ گاڑی رکی تو انہوں نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور ڈرائیور کو کہا،
"جاو جوس کے تین ڈبے لے کر آجاو"۔
(جاری ہے)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔