تشنگی بڑھتی رہے گی
یوں میرے پاس نہ آ
دور خوابوں سے کہیں
زیست کی محفل کو سجا
پوچھ لے کوئی تو
خاموش رہ،
کچھ بھی نہ بتا
کوئی اصرار کرے
پھر بھی تو
ان کو یہ سنا
"کوئی پیاسا تھا
کئی روز کا بھٹکا ہوا تھا
ایک دن پاس سے گزرا تو
مجھے رحم آیا
میں نے دو گھونٹ دئیے اس کو
تو مدہوش ہوا
اپنے خوابوں میں
خیالوں میں
مچلنے سا لگا
مجھ کو اپنانے کی خواہش میں
بہلنے سا لگا
اسکو ایسا لگا
اک روز
میں ہاں کر دوں گی
جھوٹے ارمانوں نے
برباد کیا اسکو
تباہ کر ڈالا
اپنا قاتل تو
وہی خود ہے
وہی مجرم ہے
جرم یہ صرف اسی کا ہے
میرا دوش نہیں"
تباہ کر ڈالا
اپنا قاتل تو
وہی خود ہے
وہی مجرم ہے
جرم یہ صرف اسی کا ہے
میرا دوش نہیں"
No comments:
Post a Comment
Your comment is awaiting moderation.