Friday, December 21, 2012

دلیل


تشنگی بڑھتی رہے گی 
یوں میرے پاس نہ آ
دور خوابوں سے کہیں
زیست کی محفل کو سجا 
پوچھ لے کوئی تو 
خاموش رہ،
کچھ بھی نہ بتا

کوئی اصرار کرے 
پھر بھی تو
ان کو یہ سنا


"کوئی پیاسا تھا
کئی روز کا بھٹکا ہوا تھا 
ایک دن پاس سے گزرا تو 
مجھے رحم آیا 
میں نے دو گھونٹ دئیے اس کو 
تو مدہوش ہوا 

اپنے خوابوں میں 
خیالوں میں 
مچلنے سا لگا
مجھ کو اپنانے کی خواہش میں 
بہلنے سا لگا 

اسکو ایسا لگا 
اک روز 
میں ہاں کر دوں گی 

جھوٹے ارمانوں نے 
برباد کیا اسکو
تباہ کر ڈالا

اپنا  قاتل تو
وہی خود ہے
وہی مجرم ہے
جرم یہ صرف اسی کا ہے
میرا دوش نہیں"

No comments:

Post a Comment

Your comment is awaiting moderation.

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages